تحریر نہیں ہے کہ اس قبرکا مالک کبھی بھی بیت المقدس سے جان بچا کر زندگی بسر کرنے کو یہاں آیا تھا۔ کیونکہ اکمال الدین کی عبارت اصل تحریر کے مطابق یوں ہے کہ: ’’راجہ جنیسر ملک صولابت (سولابت) کا باشندہ تھا۔ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام اس نے یوز آصف رکھا۔ جب وہ بالغ ہوا تو حکیم منوہر لنکا سے اس کے پاس آیا۔ راجہ نے اس کی عزت وآبرو سے تواضع کی اور اپنے بیٹے یوز آصف کا اتالیق مقرر کیا۔ شہزادہ نے اس سے مذہبی تعلیم حاصل کی اور دنیا سے بے تعلق رکھنے کی تعلیم نے اس کا دل بادشاہت سے برداشتہ کردیا اور حکیم منوہر اس کا تعلیمی نصاب مکمل کر کے وہاں سے چلا گیا۔ تو ایک دفعہ شہزادہ کو فرشتہ نظر آیا۔ اس نے خدا کی رحمت کی اسے بشارت دی اور کچھ راز بتایا۔ جس پر وہ عمل پیرا رہا۔ پھر فرشتہ نے اسے حکم دیا کہ سفر کے لئے تیاری کرے تاکہ میں تیرے ہمراہ یہاں سے نکل جاؤں۔ اس کے بعد شہزادہ ہجرت کرتے ہوئے اپنے ملک سے نکل گیا تو اس نے ایک صحرا میں پانی کے پاس ایک درخت دیکھا۔ جہاں اس نے کچھ دن قیام کیا اور وہاں اس کو وہی فرشتہ نظر آیا۔ پھر اس نے بستیوں میں وعظ کہنا شروع کیا تو کچھ مدت کے بعد اپنے اصلی وطن سولابت کو واپس چلاگیا اور والدین نے بڑے تپاک سے اس کا استقبال کیا اور شہزادہ نے ان کو توحید کی دعوت دی۔ کچھ مدت کے بعد کشمیر میں آیا اور وہاں کے باشندے اس سے مستفید ہوئے اور اس نے ان کو بھی توحید کی دعوت دی۔ چنانچہ یہ یہیں رہنے لگا اور جب مرنے لگا تو اپنے چیلے یا بد کو توحید کی وصیت کی اور جہاں فانی سے رخصت ہوا۔
اب اس عبارت کو حضرت مسیح علیہ السلام پر منطبق کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سولابت کا معنی بیت المقدس کیا جائے اور حکیم منوہر سے مراد روح القدس لیا جائے۔ اسی طرح والدین سے مراد یوسف اور مریم ہوں اور ان کو کسی علاقہ کا بادشاہ بھی تصور کیا جائے اور جب تک یہ امور ثابت نہ ہوں حضرت مسیح علیہ السلام کے سوانح سے اس عبارت کا تعلق پیدا نہیں ہوسکتا۔
۴…مؤرخ طبری
الف… مؤرخ طبری لکھتا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام اور یوسف (چچازاد رشتہ دار) دونوں ایک مسجد میں خادم تھے۔ جو جبل صیہون کے پاس تھی۔ آپ ایک دن چشمہ سے پانی لینے گئیں تو جبرئیل نے نفخ کیا۔ جس سے آپ کو حمل رہ گیا۔ یوسف نے بدظن ہوکر پوچھا کہ بیج کے سوا بھی کوئی پودا ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ سب پودے ابتداء میں بغیر بیج کے تھے۔ آدم کا بھی ماں باپ نہ تھا۔ تو یوسف خاموش ہوگئے اور جب وضع حمل کے آثار پیدا ہوئے تو یوسف آپ کو مصر لے گئے۔ ابھی دور ہی تھے کہ دردزہ شروع ہوگیا تو گدھے پر سے اترکرایک کھجور کے نیچے ڈیرہ لگادیا اور وہاں حضرت مسیح پیدا ہوئے۔ سردی کا موسم تھا۔ فرشتوں نے آکر آپ کو تسلی دی۔ اس رات تمام بت سرنگوں ہوگئے۔شیاطین آلپکے مگر ناکام رہے اور یہ عہد کیا کہ اس کی زندگی میں اس کا کام تمام کر ڈالیںگے۔ مجوسی ستارہ دیکھ کر مر، لوبان اور سونا کی نیاز چڑھاگئے۔ کیونکہ مرسے شفا ہوتی ہے اور اس نبی سے شفا حاصل ہوگی۔ لوبان اس لئے کہ اس کا دھوان سیدھا آسمان کو جاتا ہے اور یہ نبی بھی سیدھا آسمان کو جائے گا اور سونا اس لئے کہ تمام مال ودولت کا سردار ہے اور یہ نبی بھی اپنے زمانہ میں بہترین شخص ہوگا۔ (ہیرودس کا قصہ مذکور ہے) پھر بارہ سال آپ مصر میں رہے۔ (اور یہی ربوہ کا مقام ہے) آپ زمیندار کے گھر رہتے تھے۔ ایک رات اس کی چوری ہوگئی تو آپ نے وہاں کے خیرات خوار جمع کر کے ایک اندھے اور ایک لوہنجے کو پکڑ کر کہا کہ تم نیچے بیٹھو اور اندھے کو کاندھے پر اٹھاؤ۔ اس طریق سے وہ زمیندار کے خزانہ تک پہنچ گئے تو آپ نے ان کو چور ثابت کیا اور واپس شام میں آگئے۔ تیس سال کے تھے کہ آپ کو نبوت ملی اور تین برس کے بعد خدا نے آپ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔