بہت جلد گناہوں سے نجات پاؤگے۔ اس کے بعد آپ نے مختلف مقامات پر توحید کا وعظ تین سال تک کیا اور آپ کی عمر بتیس سال تک پہنچ گئی۔
جاسوسوں نے اپنا کام شروع رکھا اور پلاطوس کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ لوگ کہیں حضرت مسیح علیہ السلام کو سچ مچ ہی بادشاہ نہ تسلیم کر لیں۔ اب آپ کے ذمہ بغاوت کا جرم لگا کر آپ کو اندھیری کوٹھری میں بند کیاگیا اور مجبور کیا کہ آپ بغاوت کا اقبال کریں۔ مگر آپ نے نہ کیا اور تکالیف برداشت کرتے رہے اور جب دربار میں آپ پیش کئے گئے تو پلاطوس نے پوچھا کہ کیا تم نے یوں نہیں کہا کہ مسیح کو خدا نے اس لئے بھیجا ہے کہ لوگوں میں بغاوت پھیلا کر خود بادشاہ بن جائے؟ جواب میں آپ نے فرمایا کہ جب تم صلیب پر قتل کر سکتے ہو تو اس کی کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں سے اس جرم کا اقبال کرایا جائے۔ اس روکھے جواب پر پلاطوس نے غصہ کھا کر آپ کو صلیب پر لٹکانے کا حکم دیا اور باقی مجرموں کو رہا کر دیا تو سپاہیوں نے آپ کو بمعہ دو اور چوروں کے صلیب دیا تو سارا دن لاش صلیب پر رہی۔ سپاہیوں کا پہرا تھا تابعد از لوگ دیکھ دیکھ کر روتے تھے اور ان کو اپنی جان کا خوف بھی لگ رہا تھا۔ شام کے قریب مسیح کی روح خدا کے پاس چلی گئی۔ اب پلاطوس کو ندامت آئی کہ اس نے برا کیا ہے۔ اس لئے اس نے آپ کی لاش آپ کے رشتہ داروں کے سپرد کی۔ جس کو انہوں نے صلیب خانہ کے پاس ہی دفن کردیا اور لوگ اس قبر کی زیارت کرنے لگے۔
۳…اکمال الدین واتمام النعمتہ للقمّی
مرزاقادیانی (روضتہ الصفا جلد اوّل ص۱۳۳) سے لکھتے ہیں کہ یہودی آپ کے عہد میں بارہ قبائل تھے۔ جن میں سے نو قبائل کو بخت نصر نے تبت، کشمیر، ہند اور افغانستان کو جلاوطن کر دیا تھا۔ کیونکہ ان لوگوں کی وضع قطع اور شہروں یا بستیوں کے نام وہی ہیں جو ملک شام میں تھے۔ مثلاً بابل، گلگت، طور، صور، صیدا، تخت سلیمان، نینویٰ وغیرہ۔ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب کے بعد کشمیر کو آئے اور وہاں اپنی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی خبر لی اور ۸۷سال بعد وفات پاگئے اور یہ بھی مشہور ہے کہ آپ نے اپنی معشوقہ مریم کو خدا کے سپرد کیا اور وہاں سے کوہ جلیل میں آئے جو بیت المقدس سے تیس میل کے فاصلہ پر ہے اور دشمنوں سے خوف کھا کر اس پر چڑھ گئے۔ اس وقت پہاڑ پر ابر چھایا ہوا تھا تو لوگوں نے خیال کیا کہ آپ آسمان کو چڑھ گئے ہیں۔ حواریوں نے بھی یہی خیال کر لیا تھا یا یوں اصل واقعہ پر پردہ ڈالتے ہوئے رفع سماوی کا قول ظاہر کیا۔ مگر آپ نے شہر نصیبیں پہنچ کر سلطان اڑیسہ کو خط لکھا کہ میں اب آسمان کو جاؤںگا اور تمہاری طرف چند حواری بھیجتا ہوں۔ کتاب کروسی فکشن میں ہے کہ جب کائفس کاہنوں کے سردار کو معلوم ہوا کہ آپ صلیب نہیں دئیے گئے تواس نے قصیر روم کو شکایتی خط لکھا کہ پلاطوس نے یوسف اور حواریوں سے سازش کی بناء پر مسیح علیہ السلام کو صلیب سے بچا لیا ہے تو پیلاطوس کو عتاب نامہ پہنچا۔ جس سے اس نے غصہ کھا کر یوسف کو قید کر لیا اور ایک رسالہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تلاش میں روانہ کیا کہ وہ آپ کو پکڑ کر واپس لائیں۔ مگر چونکہ آپ کشمیر پہنچ چکے تھے۔ وہاں تک کوئی نہ پہنچا۔ کشمیریوں نے یسوع کے نام کو کچھ تبدیل کر کے یوں کہنا شروع کردیا تھا۔ یوز آصف، یوز آسف پھر ارض سولابت میں آئے اور وہاں تبلیغ وحدانیت کی۔ وہاں سے نکل کر بہت شہروں میں وعظ کیا اور کشمیر کو واپس آئے اور وہیں قیام کیا اور وہیں ۸۷سال بعد واقعہ صلیب فوت ہوگئے۔
اس تحریر میں مرزاقادیانی نے خواہ مخواہ یوز آصف کی سوانح عمری کو یسوع کی زندگی پر چسپاں کیا ہے۔ ورنہ اصل کتاب دیکھنے پر یہ تحریر ہر طرح سے مخالف ہے۔ کیونکہ اس میں یہ