نے تیری تعلیم کو کیوں داغدار بنایا اور کیوں اقارب واحباب کے نزدیک تیری موت دکھلائی اور بدنام کیا۔ فرمایا: ’’اماں سچ جانو،میں نہیں مرا اور مجھ کو اﷲ نے دنیا کے خاتمہ تک محفوظ رکھا ہے۔ یہ کہہ کر چار فرشتوں کو شہادت کے لئے طلب کیا۔ تب فرشتوں نے تصدیق کی۔‘‘ تب برنباس نے پوچھا کہ چوروں کے درمیان قتل ہونے کا دھبا تو آپ پر ہمیشہ لگا رہے گا۔ فرمایا کہ: ’’میرے بعد محمد رسول اﷲﷺ آئیںگے اور یہ دھبا اڑائیںگے اور لوگوں پر واضح کردیںگے کہ میں زندہ ہوں۔‘‘ پھر برنباس کو آپ نے اپنے حالات قلمبند کرنے کا حکم دیا۔ پھر فرمایا کہ میری والدہ کو جبل زیتون میں لے جاؤ۔ کیونکہ میں وہاں سے آسمان کو چڑھوںگا۔ تب وہ مریم علیہا السلام کو وہاں لے گئے اور فرشتے تمام کے سامنے مسیح علیہ السلام کو آسمان کی طرف لے گئے۔
تمت اقتباسات انجیل برنباس، مطبوعہ لاہور
خلاصہ یہ ہے کہ یہ انجیل صاف بتا رہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ بجسم عنصری آسمان پر اٹھائے گئے۔ یہودا اپنے کیفر کردار میں مشابہ بالمسیح بن کر مصلوب ہوا اور مسیح علیہ السلام نے اخیر میں یہ بھی فرمادیا کہ محمد رسول اﷲﷺ (احمد، محمد، مسیا) آپ سے قتل وصلب کا دہبہ اٹھادیںگے۔ اب ان تصریحات کے ہوتے ہوئے ہم کس زبان سے کہہ سکتے ہیں کہ (ویأتی من بعدی اسمہ احمد) کی پیشین گوئی سے مرزاقادیانی مراد ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی تو یہود کے موافق اپنے زعم باطل میں آپ کو قتل اور مصلوب کر چکے تھے اور دشمنان اسلام کو اپنی طرف سے کامیابی دے چکے تھے۔ صرف ہڈی توڑنے کے سوا باقی سارا کام ختم ہوچکا تھا۔
۲…اقتباس از انجیل سیاہ روسی مسٹر نکونس نوکروچ
’’ایک بچہ پیدا ہوا جس میں خدا بولتا تھا۔ اس نے توحید کی دعوت دی اور اس کا نام یسوع رکھاگیا۔ جب وہ تیرہ سال کا ہوا تو سوداگروں کے ہمراہ ملک سندھ کو نکل گیا اور بنارس وجگن ناتھ کے مضافات میں چھ سال تک اپنے کام میں مشغول رہا اور بتایا کہ وید خدا کا کلام نہیں ہیں اور یہ بھی کہا کہ بت پرستی چھوڑ دو۔ کیونکہ وہ نہیں سنتے۔ اس پر براہمنوں نے اس کو مارڈالنے کی ٹھان لی۔ کیونکہ عام لوگ اس کے تابع ہوگئے تھے۔ یسوع کو اس ارادہ کی خبر لگ گئی تو رات ہی رات جگن ناتھ سے نکل کر نیپال کو چلاگیا۔ پھر کوہ ہمالیہ کو عبور کرتا ہوا راجپوتانہ آپہنچا اور وہاں سے فارس پہنچ کر تبلیغ شروع کی۔ تو وہاں کے بت پرستوں نے اس کو وعظ توحید سے روک دیا تو ملک شام میں آگیا اور اس وقت اس کی عمر ۲۹سال تھی۔ اب جابجا وعظ کرنا شروع کیا اور ہزاروں لوگ تابع ہوگئے۔ چند حکام نے بادشاہ پلاطوس سے جاکر شکایت کی کہ عیسیٰ نامی ایک واعظ اس ملک میں وارد ہوا ہے جو اپنی سلطنت کی دعوت دیتا ہے اور تیرے خلاف لوگوں میں جوش پھیلا رہا ہے۔ چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ تابع بھی ہوگئے ہیں۔ پلاطوس نے اسے گرفتار کر کے موابذ (مذہبی سرداروں) کے پیش کیا۔ مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام یروشلم آئے تو لوگوں نے بڑے اعزاز سے آپ کا استقبال کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ بہت جلد تم لوگ ظالموں سے رہائی پاکر ایک قوم بن جاؤگے اور تمہارا دشمن بہت جلد تباہ ہو جائے گا۔ جو خدا سے خوف نہیں کرتا۔ آپ سے سوال کیاگیا کہ آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں بنی اسرائیل سے ہوں میں نے سنا تھا کہ میرے بھائی اور بہنیں ظالموں کے ہاتھ گرفتار ہیں۔ اس کے بعد آپ نے جابجا شہر بشہر وعظ کہنا شروع کیا اور عبرانیوں سے یہ بھی کہنا شروع کیا کہ بہت جلد تم نجات پاؤگے۔ تب جاسوسوں نے پوچھا کہ کیا ہم قیصر روم کے ماتحت رہ کر اپنے بادشاہ پلاطوس کا حکم مانتے رہیں یا اپنی نجات کا انتظار کریں۔ تو آپ نے جواب دیا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تم قیصر روم سے نجات پاؤ گے۔ بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ تم