کرے گا۔‘‘ پھر آپ کوہ سینا پر چلے گئے اور چالیس دن وہیں رہے۔ پھر اورشلیم کو ساتویں دفعہ چلے راستہ میں کسی نے کہا کہ یہ اﷲ ہے اور اپنی قوم کو آپ کے پاس لایا تو آپ نے کہا: ’’نہیں میں بشر ہوں۔‘‘
۱۳… اس کے بعد آپ صحرائے تیرو میں گئے اور حواریوں کو نماز روزے کی تلقین کی اور ان کو کھانا لانے کے واسطے کسی بستی میں بھیجا تو سب چلے گئے۔ مگر برنباس آپ کے پاس رہا تو آپ نے فرمایا کہ: ’’اے برنباس! میرا ایک شاگرد مجھے تیس روپے پر بیچ دے گا اور میرے نام پر قتل کیا جائے گا۔ خدا مجھ کو زمین سے اوپر اٹھالے گا اور اس شاگرد غدار کی شکل تبدیل کردے گا۔ تب ہر ایک یہی سمجھے گا کہ وہ مسیح ہے۔ مگر جب مقدس رسول آئے گا تو میرے نام سے یہ دھبہ اڑادے گا۔ خداتعالیٰ یہ قدرت اس لئے دکھائے گا کہ میں نے مسیّاء کا اقرار کیا ہے۔ جو مجھے یہ بدلہ دے گا کہ میں زندہ ہوں اور موت کے دھبے سے بری ہوں۔‘‘ برنباس نے کہا کہ مجھے آپ بتائیے وہ شاگرد کون ہے۔ میں اس کا گلا گھونٹ کر مارڈالوں۔ آپ نے نہ بتایا اور کہا میری ماں کو یہ بات بتادو تاکہ اس کو تسلی رہے۔
۱۴… تب آپ نے آٹھویں دفعہ اورشلیم آکر تبلیغ کی اور پوجاریوں نے رومانی فوج کو اطلاع دی کہ آپ بت پرستی کو برا کہتے ہیں۔ اس لئے وہ واجب القتل ہیں۔ مگر آپ کو نہ پاسکے۔ کیونکہ آپ بحر جلیل میں کشتی پر سوار ہوچکے تھے۔ مگر لوگوں نے ہجوم کیا تو آپ نے لنگر ڈال کر ان کو ساحل کے قریب تبلیغ کی اور نائن کو دوسری بار چلے گئے۔ وہاں ایک یتیم کے گھر قیام کیا اور اس کی ماں نے بڑی خدمت کی۔ تب لوگوں نے مشورہ کیا کہ آپ کو اپنا بادشاہ بنالیں۔ مگر آپ وہاں سے بھاگ گئے اور پندرہ دن تک حواریوں کو بھی نہ ملے۔ تب یوحنا، یعقوب، اور برنباس نے آپ کو پاکر عرض کی اے معلم! تو ہم سے کیوں بھاگ گیا تھا؟ کہا کہ اس لئے بھاگا ہوں کہ شیطانی فوج میرے قتل کے سامان کر رہی ہے۔ دیکھ لوگے کہ پوجاری حاکم رومانی حاکم سے میرے قتل کا حکم حاصل کر لیںگے۔ کیونکہ ان کو میرے بادشاہ بننے کا خطرہ لگا ہوا ہے اور میرا ایک شاگرد مجھ کو ان کے حوالے کر دے گا۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام مصر میں بیچا گیا تھا۔ مگر خداتعالیٰ اس کو پکڑادے گا اور حضرت داؤد علیہ السلام کا حکم پورا ہو گا۔ (چاہ کن را چاہ درپیش) مجھے ان کے ہاتھوں سے بچا کر دنیا سے اٹھالے گا۔
اب دوسرے دن آپ کے شاگرد دو دو ہوکر حاضر ہوئے اور باقیوں کا انتظار دمشق میں کیا تو ان کو موت کے متعلق وعظ کیاکہ انسان کو عارضی گھر کا خیال نہ کرنا چاہئے۔ بلکہ اصلی وطن (آخرت) کا سامان کرنا چاہئے۔ پھر کہا کہ میں تم کو اس لئے نہیں کہتا کہ میں اب مرجاؤںگا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں دنیا کے اختتام تک زندہ رکھا جاؤںگا۔
۱۵… یہودا آپ کا توشہ دان سنبھالے رہتا تھا کہ جس میں نذرانے ہوتے تھے۔ صرف اس خیال سے کہ آپ جب بادشاہ بن جائیںگے تو مجھے بھی اچھا عہدہ مل جائے گا۔ اب انکاری ہوکر کہنے لگا کہ اگر یہ نبی ہوتا تو ضرور جان لیتا کہ میں اس کا چور ہوں۔ حکیم ہوتا تو سلطنت لینے سے نہ بھاگتا۔ اب اس نے رئیس الکہنہ کو وہ تمام ماجرا سنادیا جو نائین میں پیش آیا تھا۔ تو پوجاریوں نے یہ سوچا کہ آپ ہماری بت پرستی سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسیا بنی اسماعیل سے ہوگا اور داؤد علیہ السلام سے نہیں آئے گا اور لوگوں میں آپ کی قبولیت بہت عام ہوچکی ہے اور لوگ آپ کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں۔ مناسب ہے کہ حاکم رومی سے مدد لے کر آپ کو رات کے وقت گرفتار کیا جاوے۔ ورنہ اس کی بادشاہی میں ہم تباہ ہو جائیںگے۔