(حمامۃ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰)
’’کیا تو نہیں جانتا کہ اس محسن رب نے ہمارے نبیﷺ کا نام خاتم الانبیاء رکھا ہے اور کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا اور آنحضرتﷺ نے طالبوں کے لئے بیان واضح سے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور اگر ہم آنحضرتﷺ کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز رکھیں تو لازم آتا ہے کہ وحی نبوہ کے دروازے کا انفتاح بھی بند ہونے کے بعد جائز خیال کریں اور یہ باطل ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں پر پوشیدہ نہیں اور آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی کیوں کر آوئے۔ حالانکہ آپﷺ کی وفات کے بعد وحی نبوت منقطع ہوگئی ہے اور آپﷺ کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ہے۔ ‘‘
۲… ’’ماکان لی ان ادعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین‘‘ (حمامۃ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷) ’’مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے نکل جائوں اور کافروں کی جماعت میں جاملوں۔‘‘
۱۸۹۶ء کے اقوال
۱… ’’اگر راقم صاحب کی پہلی رائے صحیح ہے کہ میں مسلمان ہوں اور قرآن شریف پرایمان رکھتا ہوں تو پھر یہ دوسری رائے غلط ہے۔ جس میں ظاہر کیاگیا ہے کہ میں خود نبوت کا مدعی ہوں اور اگر دوسری رائے صحیح ہے تو پھر وہ پہلی رائے غلط ہے۔ جس میں ظاہر کیاگیا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور قرآن شریف کو مانتاہوں۔ کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رسالت اور نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے اور آیت ولکن رسول اﷲ وخاتم البنیین کو خدا کا کلام یقین رکھتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں بھی آنحضرتﷺ کے بعد رسول اور نبی ہوں۔ صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکہ لگ جانے کا احتمال ہے۔‘‘
(حاشیہ انجام آتھم ص۲۶، خزائن ج۱۱ ص۲۶)
۲… ’’لیکن وہ مکالمات اور مخاطبات جو اﷲ جل شانہ کی طرف سے مجھ کو ملے ہیں۔ جن میں یہ لفظ نبوت اور رسالت کا بکثرت آیا ہے ان کو میں بوجہ مامور ہونے کے مخفی نہیں رکھ سکتا۔ لیکن باربار کہتا ہوں کہ ان الہامات میں جو لفظ مرسل یا رسول یا نبی کا میری نسبت آیا ہے وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں ہے اور اصل حقیقت جس کی میں علی رؤس الاشہاد گواہی دیتا ہوں یہی ہے جو ہمارے نبیﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا۔‘‘ (حاشیہ انجام آتھم ص۲۶،۲۷، خزائن ج۱۱ ص۲۶،۲۷)
۳… ’’آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبوی سے نبی اﷲ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلّم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات آلٰہیہ کا ہے۔ ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا۔‘‘