طرف نماز پڑھتا ہوں اور میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘ (آسمانی فیصلہ ص۳، خزائن ج۴ ص۳۱۳، حقیقت النبوت ص۹۲)
۱۸۹۲ء کے اقوال
۱… ’’اور یقین کامل سے جانتا ہوں اور اس بات پر محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبیﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آنجنابﷺ کے بعد اس امت کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نیا ہو یا پرانا اورقرآن کریم کا ایک شوشہ یا نقطہ منسوخ نہیں ہوگا۔ ہاں محدث آئیں گے۔‘‘ (نشان آسمانی ص۳۰، خزائن ج۴ ص۳۹۰)
۲… ’’تمام مسلمانوں کی خدمت میں گذارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام وتوضیح المرام وازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے ۔ یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیںبلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کے رو سے بیان کئے گئے ہیں ورنہ حاشاوکلا مجھے نبوت حقیق کا ہرگز دعویٰ نہیں ہے۔ اگر مسلمان ان لفظوں سے ناراض ہیں۔ تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرماکر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں اور اس لفظ کو کاٹا ہوا خیال فرمالیں… میری نیت میںجس کو اﷲتعالیٰ جل شانہ خوب جانتا ہے۔ اس لفظ نبی سے مراد نبوت حقیقی نہیں بلکہ صرف محدث مراد ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۱۳، حقیقت النبوۃ ص۹۱)
۱۸۹۳ء کے اقوال
۱… ’’ماکان اﷲ ان یرسل نبیاً بعد نبینا خاتم النبیین وما کان ان یحدث سلسلۃ النبوۃ بعدانقطا عہا‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۷۷، خزائن ج۵ ص ایضاً)
یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمارے نبی خاتم النبیینﷺ کے بعد اﷲتعالیٰ کوئی نبی بھیجے اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انقطاع کے بعد پھر سلسلہ نبوت کا حادث کرے۔
۲… ’’میں نبی نہیں ہوں بلکہ اﷲ کی طرف سے محدث اور اﷲ کا کلیم ہوں تاکہ دین مصطفیﷺ کی تجدید کروں اور اس نے مجھے صدی کے سرپر بھیجا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۸۳، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۱۸۹۴ء کے اقوال
۱… ’’الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبیناﷺ خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبینا فی قولہ لا نبی بعدی ببیان واضح للطالبین ولو جوزنا ظہور نبی بعد نبینا ﷺ لجوزنا انفتاح باب وحی النبوۃ بعد تغلیقہا وھذا خلف کما لایخفی علی المسلمین وکیف یجییٔ نبی بعد رسولناﷺ وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اﷲ بہ النبیین‘‘