نبوت سے ایک نوع ہے۔ محدثیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’نبوت کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۱۸، ۱۹، خزائن ج۳ ص۶۰)
’’محدث کا حمل نبی پر جائز ہے۔ یعنی کہہ سکتے ہیں۔ المحدث نبی!‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۳۸، خزائن ج۵ ص۲۳۸)
۱۸۹۳ء الہامات میں ’’میری نسبت باربار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ خدا کا مامور خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لائو اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص۶۲)
لہٰذا بعض علماء نے اس پر فتویٰ کفر دیا کہ اس شخص نے دعویٰ حقیقت میں نبوت کا کر لیا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی نے انکار کیا کہ میں مدعی نبوت نہیں ان الفاظ کو ترمیم شدہ اور کاٹا ہوا تصور فرمالیں اور اس کی جگہ محدث کا لفظ سمجھ لیں۔ لیکن پھر بھی مرزاقادیانی نے ان الفاظ کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ ۱۹۰۱ء میں ایک اشتہار بعنوان (ایک غلطی کا ازالہ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۳۱) لکھ کر آپ نے نبوت کی ایک خام بنیاد رکھ ہی دی۔ بالآخر اس کے بعد بڑے شدومد کے ساتھ کھلم کھلا دعویٰ نبوت ورسالت کیا۔ (دیکھو بدر ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
لیکن اس صاف دعویٰ کے ساتھ ہی غیرت الٰہی جوش میں آئی اور دفعتاً موت نے آپ کو آپکڑا۔ ۱۸۹۱ء سے ۱۹۰۰ء تک کے اقوال ملاحظہ ہوں۔
۱۸۹۱ء کے اقوال
۱… ’’قرآن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔ خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا ہو۔ کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے اور باب نزول جبرائیل بہ پیرایہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود ممتنع ہے کہ دنیا میں رسول تو آئے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۶۱، خزائن ج۳ ص۵۱۱، ۱۸۹۱ئ)
۲… ’’اب جبرائیل علیہ السلام بعد وفات رسول اﷲﷺ ہمیشہ کے لئے وحی نبوت لانے سے منع کیاگیا اور اگر یہ کہو کہ مسیح کو وحی کے ذریعہ سے صرف اتنا کہا جائے گا کہ توقرآن پر عمل کر تو یہ طفلا نہ خیال ہنسی کے لائق ہے۔ ظاہر ہے کہ اگرچہ ایک ہی دفعہ وحی کا نزول فرض کیا جائے اور صرف ایک ہی فقرہ حضرت جبرائیل علیہ السلام لاویں اور پھر چپ ہوجائیں یہ امر بھی ختم بنوت کا منافی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۷۷، خزائن ج۳ ص۴۱۱، ۱۸۹۱ئ)
’’اور ظاہر ہے کہ یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبیین کے بعد پھر جبرائیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمدوفت شروع ہوجائے اور ایک نئی کتاب اﷲ گومضمون میں قرآن سے توارد رکھتی ہو پیدا ہوجائے اور جو امر مستلزم محال ہو وہ محال ہوتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۸۳، خزائن ج۳ ص۴۱۴)