ہیں اور تریاق القلوب ۱۸۹۹ء کی ہے۔ جو بعض موانعات کی وجہ سے ۱۹۰۲ء میں شائع ہوسکی۔‘‘ (حقیقت النبوت ص۵۵، ۱۲۰، ۱۲۱)
’’۱۹۰۰ء کے بعد سے جزوی نبوت یا محدثیت منسوخ ہے۔‘‘ (حقیقت النبوت ص۱۶۱)
مرزاقادیانی کی پالیسی دعویٰ نبوت میں
۱۹۰۰ء سے پہلے مرزاقادیانی کا مجدد، امام الوقت، محدث، مہدی معہود، مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا اور بظاہر ختم نبوت کا اقرار کرتے تھے اور بڑے شدومد کے ساتھ ختم نبوت پر اپناایمان ظاہر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہر قسم کی نبوت آپؐ پر ختم ہوگئی ہے اور نبوت کی کوئی نوع باقی نہیں رہی۔ چنانچہ موجبہ کلیہ سے بیان کرتے تھے۔
ہست اوخیر الرسل خیر الانام
ہر نبوت را بروشد اختتام
(سراج منیر ص۹۳، خزائن ج۱۲ ص۹۵)
اور دعویٰ منصب نبوت سے قطعی انکار ظاہر کرتے تھے۔ کیونکہ قران میں نص قطعی ہے اور احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے اور ضروریات اسلام میں داخل ہے اور کوئی تاویل بھی نہیں سوجھتی تھی۔ دعویٰ نبوت میں مسلمان تو کیا ان کے مرید بھی ہاتھ سے جاتے رہتے یک لخت کوئی یہ دعویٰ مان لینے کے لئے تیار نظر نہیں آیا۔ لہٰذا کچھ کچھ شوشے لگانے شروع کئے کہ محدث بھی جزئی نبی ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ سے نبی ہی ہوتا ہے۔ مجازاً لغوی معنی کی رو سے نبی کہہ سکتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک پسندیدہ نہیں کہ عام مسلمان کو دھوکہ لگ جانے کا خوف ہے۔ پھر خوب کثرت سے اس لفظ کا استعمال شروع ہوگیا کہ میں بوجہ مامور ہونے کے مجبور ہوں۔ جب دیکھا کہ اب مریدوں کے کان ان الفاظ کو سن کر بدکتے نہیں اور قلوب پر مہر لگ چکی ہے تو یہ سب قیدیں اڑادیں اور کھلے بندوں نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ (بدر ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
اگر کوئی مرید نبوت سے انکار کرتا ہے تو اس کی جان کو آجاتے ہیں۔ جیسا کہ مرزاقادیانی اپنے ایک مرید کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو(ایک غلطی کا ازالہ ص۲، خزائن ج۱۸ ص۲۰۶) اس بیچارے کو خواہ مخواہ کس قدر ڈانٹ رہے ہیں۔ چونکہ شریعت محمدیہ کے بعد کسی نبی کا آنا تو بہت مشکل امر تھا تو پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے درپے ہوئے اور چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ورود تواتر سے ثابت ہے۔ لہٰذا مسیح موعود، محدث بنے اور پھر چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت سے لگائو ہے تو پھر کیا تھا۔ بس راستہ کھل گیا۔
دعویٰ نبوت میں مرزاقادیانی کی تدریجی چال
۱۹۰۰ء سے پہلے صرف محدث ہونے کا دعویٰ تھا اور یہ دعویٰ بھی خدا کے حکم سے کیاگیا تھا اور بظاہر لفظوں میں ختم نبوت کے اقراری تھے اور مدعی نبوت کو کافر بتلاتے تھے۔ اس پر بھی نبی بننے او رکہلانے کا بہت شوق تھا۔ اسی لئے محدثیت کو مجازی، جزئی۔ لغوی نبوت سے تعبیر کرنے کے علاوہ حقیقت نبوت کو اپنے لئے خوب ثابت اور ظاہر کرتے تھے۔ مثلاً محدثیت انواع