ماہیت میں یہ امر داخل ہے کہ دینی علوم کو بذریعہ جبرائیل حاصل کرے۔‘‘ اور (ص۵۳۴، خزائن ج۳ ص۳۸۷) میں لکھتے ہیں کہ: ’’حسب تصریح قرآن کریم رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام وعقائد دین جبرائیل کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں۔‘‘ (ص۷۶۱، خزائن ج۳ ص۵۱۱) میں ہے کہ: ’’رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے۔‘‘ اﷲتعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے کہ: ’’اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ (انعام:۱۲۴)‘‘ یعنی اﷲ ہی جانتا ہے کہ اپنی پیغامبری کا سلسلہ کہاں قائم کرے گا۔ یعنی پیغامبری کا منصب عطاء کرنا اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔ اس سے دوباتیں ثابت ہوئیں۔ ایک یہ کہ یہ منصب محض وہبی ہے۔ کسبی
۱؎ جیسا کہ مرزاقادیانی پر وحی ہوئی۔ ’’قل یا ایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً‘‘ (اشتہار معیار الاخیار، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۰، البشریٰ ج۲ ص۵۶)
’’قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ‘‘
(ضمیمہ حقیقت الوحی ص۸۱، خزائن ج۲۲ ص۷۰۷)
’’قل انما انابشر مثلکم یوحی الی انما الہکم الہ واحد‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۱،۸۲، خزائن ج۲۲ ص۸۵)
’’واتل ما اوحی الیک من ربک‘‘ (حقیقت الوحی ص۷۴، خزائن ج۲۲ ص۷۸)
’’انا ارسلنا الیکم رسولا شاھداً علیکم کما ارسلنا الیٰ فرعون رسولاً‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۰۱، خزائن ج۲۲ ص۱۰۵)
’’انا ارسلنا احمد الی قومہ فاعرضوا وقالو کذاب اشر‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۳۸۴)
’’یا ایہا النبی اطعم الجائع والمعتر۰ حقیقت النبوۃ ص۲۰۰‘‘
نہیں۔ جس ۱؎ کو اﷲ اپنا رسول مقرر کر سے وہ رسول ہوگا۔ دوسرے اس میں یہ ہوگا کہ خدا کے احکام بندوں تک پہنچائے گا۔ جو اس پر ایمان لا کر عمل کرے گا۔ نجات پائے گا اور جو ایمان نہ لایا معذب ہوگا۔ اسی وجہ سے انبیاء علیہم السلام کو بشیر ونذیر فرمایا گیا ہے۔
’’وما ارسلنا ک الا کافۃ للناس بشیراً ونذیراً (سبا:۲۸)‘‘ ’’وما نرسل المرسلین الا مبشرین ومنذرین (الکہف:۵۶)‘‘ یعنی ایمان والوں کے لئے بشیر بالجنۃ ہیں اور کافروں کے لئے نذیر عن النار ہیں اور ’’ما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی (الحج:۵۲)‘‘ اور ’’ما علینا الا البلاغ (یٰسین:۱۷)‘‘ سے ظاہر ہے کہ رسول اور نبی دونوں تبلیغ اوامر کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔ ’’قل انما انا بشر مثلکم یوحی الیٰ (حم سجدہ:۶)‘‘ سے ثابت ہے کہ انبیاء بھی بشر ہوتے ہیں۔ انبیاء میں اور غیر انبیاء میں مابہ الامتیاز وحی نبوت ہی ہے۔