علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحییٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، الیاس علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، الیسع علیہ السلام، یونس علیہ السلام، لوط علیہ السلام۔
اس کے بعد ہے کہ: ’’اولئک الذین اٰتیناھم الکتاب والحکم والنبوۃ (انعام:۸۹)‘‘ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور شریعت اور نبوت دی ہے۔ خود ہارون علیہ السلام کے متعلق ہے جن کو مرزاقادیانی غیر تشریعی نبی بتلاتے ہیں۔ ’’ولقد مننا علیٰ موسیٰ وھارون (الصافات:۱۱۴)‘‘ پھر ان احسانات کا بیان ہے۔ ’’واتینا ھما الکتاب المستبین (الصافات:۱۱۷)‘‘ ہم نے ان دونوں موسیٰ وہارون علیہم السلام کو کتاب روشن دی اور سورہ انبیاء میں ہے۔ ’’ولقد اتینا موسیٰ وھارون الفرقان وضیاء وذکراً للمتقین (الانبیائ:۴۸)‘‘ حالانکہ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے وزیر اور شریک فی النبوۃ تھے۔ ’’واجعل لی وزیراً من اھلی ھارون اخی۰ طہ۳۰، واشرکہ فی امری (طہ:۳۲)‘‘
’’واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب وحکمۃ (آل عمران:۸۱)‘‘ یعنی جب اﷲتعالیٰ نے سب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تم کو کتاب اور شریعت دوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اور شریعت نبیوں کو دی گئی ہے۔ ’’کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اﷲ النبیین مبشرین ومنذرین وانزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفو فیہ (بقرہ:۲۱۳)‘‘ اس آیت میں تصریح ہے کہ تمام نبیوں پر کتاب نازل ہونی ہے اور مرزامحمود قادیانی نے (حقیقتہ النبوۃ ص۱۴۹) میں یہی لکھا ہے۔ پھر اسی طرح قرآن کریم میں کتب پر ایمان لانے کا حکم ہے اور مفصل بتایا گیا ہے کہ الٰہی احکام اور اس کے شرائع کا نام کتاب ہوتا ہے۔ ’’قولہ تعالیٰ شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا والذین اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم وموسیٰ وعیسیٰ ان اقیمو الدین ولا تتفر قوا فیہ (شورٰی:۱۳)‘‘ اس سے واضح ہے کہ تام انبیاء کو ایک ہی دین مشروع ہوا ہے۔ اعمال کچھ فروعی اختلاف ہوتا ہے اور بس۔ ’’ان ھذا لفی الصحف الاولیٰ (الاعلیٰ:۱۸)‘‘ یعنی یہ قرآنی تعلیم اور ا س کے احکام پہلے انبیاء کی کتب میں بھی موجود ہیں۔ ’’ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیفاً(النحل:۱۲۳)‘‘ یعنی ملت ابراہیمی اور ملت محمدﷺ ایک ہی ہے۔ ’’وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لاالہ الا انا فاعبدون (انبیائ:۲۵)‘‘ یعنی ہم نے آپؐ سے پہلے جو کوئی رسول بھیجا اس کو یہی وحی کی کہ کوئی بندگی کے لائق نہیں میرے سوا۔ میری ہی بندگی کرو۔ ’’ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخٰسرین (زمر:۶۵)‘‘ {آپؐ کی طرف اور آپؐ سے پہلے جس قدر انبیاء آئے سب کی طرف یہ وحی کی گئی کہ اگر تم بھی شرک کرو تو تمہارے بھی سارے عمل تباہ ہو جائیں اور تم خاسرین میں داخل ہو جائو۔}
’’ما یقال لک الا ما قد قیل للرسل من قبلک ان ربک لذومغفرۃ وذوعقاب الیم (حم سجدہ:۴۳)‘‘ {آپؐ سے وہی کہا جاتا ہے جو سب رسولوں سے آپؐ سے پہلے کہا گیا ہے کہ تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے اور بڑا ہی دردناک عذاب دینے والا ہے۔}
نوٹ! ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ توحید کی تعلیم وتبلیغ کی وحی اور شرک کرنے سے نہی اور عقیدہ مغفرت وعقاب کی تعلیم ہر نبی پر ہوئی ہے۔ جو شریعت کے اعلیٰ رکن ہیں اور فاعبدونی کہہ کر سب کو عبادت کرنے کی تبلیغ کا امر ہورہا ہے اور پھر ہر نبی پر ایمان لانا اجزاء ایمان میں داخل ہے۔ بغیر ان پر اور ان کی وحی پر ایمان لائے ایمان معتبر نہیں ہوتا۔ ’’ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اﷲ (النسائ:۶۴)‘‘ لہٰذا ہر نبی نبوت کا دعویٰ کر کے کم ازکم اپنے اور اپنی وحی پر ایمان لانے کی طرف بلاتا ہے۔ وہ ایمان کے اجزاء میں ایک اور جزو اعلیٰ کو یعنی اپنے اور اپنی وحی لانے کو پہلی شریعت پر زیادہ کرتا ہے۔ پس اس سے بڑھ کر اور کون سا حکم نبوت تشریعی کا ہوسکتا ہے ۱؎ ۔ مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۶۱۴، خزائن ج۳ ص۴۳۲) میں لکھتے ہیں کہ: ’’رسول کی حقیقت اور