حضرت مجدد الف ثانی (مکتوب ۲۴ ج۳ ص۳۲۷) میںفرماتے ہیںکہ: ’’لوازم وکمالاتیکہ در نبوۃ درکار است ہمہ راعمرؓ دارد اماچوں منصب نبوۃ بخاتم الرسل ختم شدہ است بدولت منصب نبوۃ مشرف نگشت‘‘
اور (مکتوبات ۲۵۱ ج۱ ص۴۱۱) میں فرماتے ہیں کہ: ’’ کمالات حضرت شیخینؓ شبیہ کمالات انبیاء علیہم السلام است‘‘ اور اس کے بعد اسی مکتوب کے آخر میں لکھتے ہیں کہ: ’’ایں ہر دوبزرگوران درکلانی وبزرگی درانبیاء علیہم السلام معدوداند‘‘ یعنی کمالات میں دونوں خلیفہ ابوبکرؓ وعمرؓ انبیاء علیہم السلام کے مشابہ ہیں۔
اور (فتوحات مکیہ ج۲ ص۴۹۵ ،ج۳ ص۵۶۸) سے پہلے پر نقل کر چکا ہوںکہ نبوت اور نبی کا اطلاق خاص صاحب وحی تشریع پر ہے اور تشریع نبوت کے اجزاء میں سے آخر جز ہے تاوقت یہ کہ مجموع اجزاء نبوت سے متصف نہ ہو، نبی کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا حضورﷺ کے بعد نبی کا اسم ہی زائل ہوچکا ۔ نبی اور ولی میں یہی فرق ہے کہ نبی پر وحی تشریع ہوتی ہے اور ولی پر وحی تشریع نہیں ہوتی۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ صوفیاء کرام نبوت الغویہ کی تقسیم کرتے ہیں۔ نبوت عامہ غیر تشریعی ہے جو علی قدر مراتب تمام مخلوقات کو حاصل ہے اور دوسرے نبوت تشریعہ یہی مخصوص بالانبیاء ہے۔ بتلائیے اس میں کس کو خلاف ہوسکتا ہے؟۔
(فتوحات مکیہ ج۲ ص۶۹) میں ہے کہ: ’’وان کان سوالہ عن مقام الانبیاء من الاولیاء ای انبیاء الاولیاء وحی النبوۃ التی قلنا انہا لم تنقطع‘‘ یعنی اگر کوئی ان اولیاء اﷲ کے مقام کو دریافت کرے جو مقام نبوت تک پہنچے ہیں۔ جن کو انبیاء الاولیاء کہا جاتا ہے اور یہی وہ نبوت ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ وہ منقطع نہیں ہوئی۔ قیامت تک باقی رہے گی۔ خود مرزاقادیانی قبل صریح دعویٰ نبوت (حاشیہ انجام آتھم ص۲۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) میں لکھتا ہے کہ: ’’آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبوی سے نبی اﷲ نکلا ہے۔ وہ انہی مجازی معنوں کے رو سے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلّم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الٰہیہ کا ہے۔ ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا۔‘‘
اور (حاشیہ انجام آتھم ص۲۷، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) میں ہے کہ: ’’غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا۔ مستلزم کفر نہیں مگر میں اسکو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکہ لگ جانے کا احتمال ہے۔‘‘ اور دعویٰ نبوت کے بعد لکھتے ہیں کہ: ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔‘‘
(ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷، بدر ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء )
اور (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) میں صاف لکھ دیا ہے کہ: ’’اس وقت تک اس امت میں کوئی اور شخص نبی کے نام پانے کا مستحق نہیں گذرا۔‘‘ اور (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۱۵)میں ہے کہ:’’ اب تمام دنیا بے د ست وپا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے۔‘‘ نبوت صرف موہبت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب حاصل کلام یہ ہے کہ منصب نبوت جو وہبی ہے۔ جس میں وحی تشریع کا نازل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ وحی تشریع حقیقت نبوت میں داخل ہے۔ وہ حضورﷺ کی بعثت عامہ کے بعد منقطع ہے۔ لیکن مقام نبوت لغویہ اور کمالات نبوت جو کسبی ہیں اور حقیقت نبوت شرعیہ کے بعض اجزاء ہیں۔ وہ باقی ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی حقیقت کے جمیع اجزاء موجود نہ ہوں وہ حقیقت موجود نہیں ہوسکتی۔ البتہ نبوت لغویہ عامہ یہ تمام مخلوقات میں علی