بقولہ علیہ السلام انہ لانبی بعدی ولا رسول ان النبوۃ قد انقطعت والرسالۃ انما یرید بہما التشریع‘‘ {حضورﷺ کے بعد حضورﷺ کی امت میں کوئی نبی اور رسول نہیں ہوسکتا۔ جس پر شریعت محمدیہ کے خلاف شریعت نازل ہو ہاں مقام نبوت جس میں تشریع نہیں ہوتی۔ ممنوع اور مہجور نہیں۔ جبکہ حضورﷺ نے قرآن کریم کے حافظ کے متعلق فرمادیا ہے کہ اس کے پہلو میں نبوت درج کر دی گئی اور مبشرات کے متعلق فرمایا کہ یہ بھی نبوت کے اجزاء میں سے ایک جز ہے۔ پس حضورﷺ کی امت کو مقام نبوت حاصل ہے۔ اگر چہ شریعت محمدیہ کے خلاف شریعت نازل نہیں ہوسکتی اور پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ امت محمدی میں عیسیٰ علیہ السلام حاکم اور خلیفہ ہوکر نزول فرمائیں گے۔ صلیب کو توڑنے اور خنزیر کے قتل کرنے کا حکم دیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ بے شک اﷲ کے رسول اور نبی ہیں اور بلا شک عند اﷲ ان کو مرتبہ نبوت حاصل ہے لیکن نزول کے وقت مرتبہ تشریع نہ ہوگا۔ یعنی نبوت کی ڈیوٹی پر نہ ہوں گے تاکہ امرونہی نازل ہو۔ پس معلوم ہوگیا کہ حضورﷺ کے ارشاد کے یہ معنی ہیں کہ منصب نبوت اور رسالت تشریعیہ منقطع ہوگئی نہ مقام نبوت لغویہ جو علی قدر مراتب سب میں موجود ہے۔ نبی غیر صاحب الزمان وصاحب تعریفات ومقام نبوت وقابل نبوت وحافظ قرآن وصاحب وحی الہام ورؤیا صالحہ بلکہ صاحب وحی مطلقہ شہد کی مکھی وغیرہ اور صاحب نبوت عامہ جو تمام مخلوقات میں ساری ہے۔}
شیخ نے ایک دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ: ’’قال فی حدیث من حفظ القرآن فقد ادرجت النبوۃ بین جنبیہ انما لم یقل فقد ادرجت النبوۃ فی صدرہ اوبین عینیہ اوفی قلبہ لان ذلک رتبۃ النبی لارتبۃ الولی (کبریت علی حاشیہ یواقیت ج۲ ص۸)‘‘ {حضورﷺ نے حدیث میں حافظ قرآن کے متعلق یہ فرمایا کہ اس کے پہلو میں نبوت داخل کر دی گئی۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس کے سینہ میں یا اس کی آنکھوں کے سامنے یا اس کے قلب میں نبوت رکھ دی گئی۔ اس لئے کہ یہ مرتبہ نبی کا ہے نہ ولی کا۔}
شیخ اکبر نے (فتوحات مکیہ باب ۷۳ کے جواب ۲۵) میں لکھا ہے کہ: ’’اعلم ان النبوۃ لم ترفع مطلقاً بعد محمدﷺ انما ارتفع نبوۃ التشریع فقط وقد کان الشیخ عبدالقادر الجیلی یقول ادنیٰ الانبیاء اسم النبوۃ واوتینا اللقب ای حجر علینا اسم النبی مع ان الحق تعالیٰ یخبر نافی سرائرنا بمعانی کلامہ وکلام رسولہﷺ صاحب ھذا المقام من انبیاء الاولیاء فغایۃ نبوتھم التعریف بالا حکام الشریعۃ حتیٰ لا یخطئوا فیہا لا غیر (از یواقیت ج۲ ص۳۹)‘‘ {جان تو کہ حضورﷺ کے بعد مطلق نبوت (جو بمعنی خبردادن کے ہے) مرتفع نہیںصرف نبوت تشریعیہ مرتفع ہے۔ (جو ادیان میں مصطلحہ ہے) حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء علیہم السلام کو اسم نبوت اور منصب نبوت دیاگیا اور ہم اولیاء امت کو صرف لقب دیاگیا۔ یعنی باوجود اﷲتعالیٰ ہم کو بطریق تعریف وبذریعہ وحی الہام کلام اﷲ اور کلام رسول اﷲﷺ کے معنی کی خبر دیتا ہے۔ مگر نبی کا اطلاق ہم پر ممنوع ہے۔ ایسے اولیاء جو اس مقام کے صاحب ہوں ان کو انبیاء الاولیاء کہا جاتا ہے۔} یعنی یہ اولیائؒ انبیاء کے مشابہ ہیں ان کی نبوت یہی ہے جو احکام شرعیہ قرآن وحدیث کو بطریق تعریف ووحی الہام حاصل کرتے ہیں۔ جس میں خطا واقع نہیں ہوتی۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ نہ یہ کہ ان پر کلام مجید کی آیات اور اس کے اوامر ونواہی ودیگر اوامر جدیدہ بطریق وحی نبوت وخطاب من اﷲ نازل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مرزاقادیانی اور اس کی امت قائل ہے۔