کی طرح ظاہر ہوتے تھے اور یہ نوع وحی، اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں میں باقی رکھی ہے اور یہ نبوت حقیقت کے اجزاء میں سے ایک جز ہے۔ پس نبوت جمیع اجزاء مرتفع نہیں ہوئی۔ (یعنی تمام کملات واوصاف نبوت صدق، دیانت، امانت، تقویٰ، عبادت، زہد، توکل، رویائ، کشف، الہام وغیرہ دنیا سے نہیں اٹھ گئے) ہاں حقیقت نبوت کا آخری جز تشریع یعنی اعطاء منصب نبوت ووحی شریعت من اﷲ مرتفع ہے۔ پس یہی معنی لا نبی بعدہ کے ہیں۔کیونکہ جب تک حقیقت نبوت کے جمیع اجزاء موجود نہ ہوں نبوت موجود نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا حضورﷺ کے بعد جز تشریع مرتفع ہوجانے کی وجہ سے کوئی نبی بھی نہیں ہوسکتا۔}
اسی لیے شیخ نے اس کے بعد اسی (ص ج۲ ص۶۴) میں تصریحاً یہ بھی فرمادیا ہے کہ: ’’اسم النبی زال بعد رسول اﷲﷺ‘‘ یعنی حضورﷺ کے بعد نبی کا اسم ہی زائل ہوگیا ہے۔ کیونکہ حقیقت میں حضورﷺ کے بعد نبی تو اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں جو حضورﷺ کے بعد منصب نبوت کی ڈیوٹی پر فائز ہو۔ ہاں عیسیٰ علیہ السلام وادریس علیہ السلام والیاس علیہ السلام جو حضورﷺ سے پہلے اپنے اپنے زمانہ کے نبی، منصب نبوت کی ڈیوٹی پر فائز تھے اب وہ حضورﷺ کے بعد عند الشیخ زندہ موجود ہیں۔ ان کی نبوت کی ڈیوٹی ختم ہوگئی۔ لہٰذا ان کو نبی غیر تشریعی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی وہ نبی جن کی نبوت کی ڈیوٹی ختم ہوگئی کیونکہ اب صاحب الزمان نبی دوسرے ہیں۔ اسی وجہ سے شیخ نے (فتوحات مکیہ ج۲ ص۶۴) میں لکھا ہے کہ: ’’فعلمنا انہ قولہ لانبی بعدہ ای لا مشرع خاصۃ لا انہ لایکون بعدہ نبی‘‘ یعنی ہم نے جان لیا کہ لانبی بعدہ کے یہ معنی ہیں کہ کوئی حضورﷺ کے بعد منصب نبوت کی ڈیوٹی پر صاحب شرع ہوکر نہیں آسکتا۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی زندہ موجود ہی نہیں رہے گا اور اسی طرح (فتوحات مکیہ باب۷۳ ج۲ ص۳) میں فرماتے ہیں کہ: ’’ابقی اﷲ بعد رسول اﷲﷺ من الرسل الاحیاء باجسادھم فی ھذہ الدار الدنیا ثلثۃ وھم ادریس علیہ السلام بقی حیاً بجسدہ واسکنہ اﷲ فی اسماء الرابعۃ… وابقی فی الارض ایضاً الیاس وعیسیٰ کلاھما من المرسلین‘‘ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ: ’’النبوۃ التی انقطعت بوجود رسول اﷲﷺ انما ھی نبوۃ التشریع لا مقامہا فلا شرع یکون ناسخاً لشرعہﷺ ولا یزید فی شرعہ حکما اخروھذا معنی قولہ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی اے لا نبی بعدی یکون علی شرع یخالف شرع بل اذا کان یکون تحت حکم شریعتی‘‘ {وہ نبوت حقیقت جو حضورﷺ کی بعثت سے منقطع ہو گئی ہے۔ وہ نبوت تشریع ہے۔ جس میں امر ونہی الٰہی نازل ہوا کرتے ہیں نہ مقام نبوت، پس حضورﷺ کے بعد شریعت نازل نہیں ہوسکتی۔ جو حضورﷺ کی شریعت کے لئے ناسخ بنے اور نہ آپؐ کی شریعت میں کوئی حکم زیادہ ہوسکتا ہے۔ رسالت اور نبوت کے منقطع ہونے اور حضورﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہ ہونے کے یہی معنی ہیں۔ یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی جس پر شریعت نازل ہو جو ہرحال میری شریعت کے خلاف ہوگی، نہ ہوگا۔ تو حضورﷺ ہی کی شریعت کے تحت میں داخل ہوگا۔جیسے الیاس وادریس وعیسیٰ علیہم السلام۔}
اور (فتوحات مکیہ ج۱ ص۵۶۹) میں لکھتے ہیں کہ: ’’لا یکون بعد رسول اﷲﷺ فی امتہ نبی یشرع اﷲ لہ خلاف شرع محمد ولارسول وما منع المرتبۃ ولا حجرھا من حیث لاتشریع ولا سیماقال علیہ السلام فی من حفظ القرآن ان النبوۃ ادرجت بین کتفیہ وقال فی المبشرات انہا جزء من اجزاء النبوۃ فوصف بعض امتی بانھم قدحصل لہم المقام وان لم یکونوا علیٰ شرع یخالف شرعہ وقد علمنا بما قالﷺ ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل فینا حکماً مقسطاً عدلاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ولا یشک قطعا انہ رسول اﷲ ونبیہ وھو ینزل فلہ علیہ السلام مرتبۃ النبوۃ بلاشک عنداﷲ وما لہ مرتبۃ التشریع عند نزولہ فعلمنا