(فتوحات کے باب ۳۸) میں ہے کہ: ’’لما اغلق اﷲتعالیٰ باب الرسالۃ بعد رسول اﷲﷺ کان ذالک من اشد ما تجرعت الاولیاء مرارتہ… فابقی علیہم اسم الولی… ولما علم رسول اﷲﷺ ان فی امتہ من تجرع کاس انقطاع الوحی والرسالۃ فجعل لخواص امتہ نصیبا من الرسالۃ فقال لیبلغ لشاھدا الغائب فامرھم بالتبلیغ لیصدق علیھم اسم الرسل (کبریت علی حاشیۃ یواقیت مبحث۴۶ ج۲ ص۸۶)‘‘ {جب اﷲتعالیٰ نے حضورﷺ کے بعد رسالت کے دروازے کو بند کر دیا تو اولیائؒ پر اس کا مزہ سخت کڑوا گذرا… پس ان پر اسم ولی کا قائم کیا اور جب رسول اﷲﷺ کو معلوم ہوا کہ میری امت میں انقطاع وحی اور رسالت کا پیالہ پئے گے تو خواص امت کے لئے رسالت کا ایک شعبہ مقرر کیا۔ پس ان کو تبلیغ کا حکم دیا تاکہ اسم رسل کے مصداق بن جائیں۔ اگرچہ اس شعبہ کی بناء پر اطلاق ناجائز ہے۔}
شیخ اکبر فصوص (الحکم فص عزیری ص۱۴۰) میں لکھتے ہیں کہ: ’’فابقی لہم النبوۃ العامۃ اللتی لا تشریع فیھا… امانبوۃ التشریع والرسالۃ منقطعۃ فی نبیناﷺ فلا نبی بعدہ مشرعا اومشرعالہ ولا رسولہ وھوالمشرع‘‘ {نبوت عامہ کو لوگوں کے لئے باقی رکھا ہے۔ لیکن نبوت ورسالت تشریع ہمارے حضورﷺ میں منقطع ہوچکی۔ پس آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ خواہ مشرع ہو یا مشرع لہ اور نہ رسول ہوسکتا ہے اور یہ مشرع ہی ہوتا ہے۔ }
نوٹ! شیخ اکبر کا (قول نمبر۸) میں معلوم کر چکے کہ نبی رسول سے عام ہے اور نبی اس کو کہتے ہیں۔ جس پر امرونہی یعنی شریعت جدیدہ نازل ہوتا کہ وہ عبادت کرے۔ اگر تبلیغ کا بھی امر کیاگیا تو مشرع یعنی رسول ہے۔ یعنی شریعت کو غیر تک پہنچانے والا ورنہ مشرع لہ ہوگا۔ یعنی صرف اسی کے لئے شریعت نازل کی گی۔ جس پر وہ عبادت کرے تبلیغ کرنے کا حکم نہیں ہوا۔ بہرحال یہ شریعت جدیدہ پہلی شریعت کی ناسخ ہوگی۔ کیونکہ صرف اس نبی کو یا رسول ہونے کی حالت میں لوگوں کو بھی اسی نبی کی شریعت پر عمل واجب ہے۔ پہلے نبی کی شریعت پر عمل نہیں کر سکتے۔خواہ یہ شریعت اس شرعیت کے موافق ہو یا مخالف جیسے نمبر۱ میں معلوم کر چکے۔
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ (تفہیمات الٰہیہ کے تفہیم نمبر۵۳ ج۲ ص۷۲،۷۳) میں لکھتے ہیں کہ:’’ ختم بہ النبیون اے لا یوجد من یامرہ اﷲ سبحانہ بالتشریع علی الناس‘‘ یعنی حضورﷺ کے بعد ایسا کوئی شخص نہیں ہوسکتا جس کو تشریع کا اﷲتعالیٰ امر کرے یہی معنی خاتم النبیین کے ہیں کیونکہ نبی اسی کو کہتے ہیں جس پر وحی تشریع ہو۔ نہ صاحب وحی الہام ومبشرات کو۔
الغرض بعض اہل کشف ووجود نبوت لغویہ کی تقسیم کرتے ہیں نہ نبوت مصطلحہ فی الادیان کی، یعنی مطلق نبوت جو لابشرط شے کے درجہ میں ہے۔ اس کے دو فرد ہیں۔ نبوت بشرط لا تشریع یعنی نبوت عامہ ومطلقہ یہ علی قدر مراتب تمام مخلوق میں موجود ہے۔ دوسرا نبوت بشرط تشریع یعنی نبوت خاصہ شرعیہ۔ یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے اور یہی مرتفع ہوگئی ہے اور یہ اصطلاح شریعت کے کچھ بھی خلاف نہیں۔
شیخ اکبر (فتوحات مکیہ ج۲ ص۶۴) میں لکھتے ہیں کہ: ’’اول مابدی بہ رسول اﷲﷺ من الوحی الرؤیا فکان لایری رؤیا الاخرجت مثل فلق الصبح وھی التی ابقی اﷲ علی المسلمین وھی من اجزاء النبوۃ فما ارتفعت النبوۃ باالکلیۃ ولھذاء قلنا انما ارتفعت نبوۃ التشریع فہذا معنی لانبی بعدہ‘‘ {ابتداء میں سب سے پہلے جو وحی حضورﷺ کی ہوئی ہے وہ رؤیا تھی جو خواب دیکھتے صبح روشن