رہنے کے قائل ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام و ادریس علیہ السلام والیاس علیہ السلام فتوحات کے باب ۳۶۷ میں معراج کے بیان میں لکھتے ہیں کہ: ’’فلما دخل اذا بعسییٰ علیہ السلام بجسدہ عینہ فانہ لم یمت الی الان بل رفعہ اﷲ الی ھذہ السماء واسکنہ بہا (ازیواقیت ج۲ ص۳۴ مبحث ۳۴)‘‘
اور (فتوحات کے باب ۷۳) میں لکھتے ہیں کہ: ’’ابقی اﷲ بعد رسول اﷲ من الرسل الاحیاء باجسادھم فی ھذہ الدار الدنیا ثلثۃ‘‘ اس کے بعد تینوں نبیوں کا ذکر ہے۔ لہٰذا شیخ اکبر ان تینوں کو نبی غیر تشریع سے تعبیر فرماتے ہیں۔ مدت تک اپنے اپنے زمانہ میں نبوت کی ڈیوٹی پر قائم رہ چکے ہیں ان پر وحی شریعت نازل ہوتی تھی۔ مگر اب ان کی ڈیوٹی ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی (الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ئ) میں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے قائل تھے۔ تصریح فرماتے ہیں کہ ’’محی الدین ابن العربیؒ نے لکھا ہے کہ نبوت تشریعی جائز نہیں دوسری جائز ہے۔ مگر میرا اپنا یہ مذہب ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے۔‘‘ لیکن اس کے بعد مرزااور مرزائیوں کی عقل پر تعجب ہے کہ انہوں نے اس سے الحاد کا رستہ نکالا کہ مرزاقادیانی نبی غیرتشریعی ہیں۔ کیونکہ محی الدین ابن العربی حضورﷺ کے بعد نبی غیر تشریعی کو جائز مانتے ہیں۔ بھلا کیا مرزا قادیانی بھی حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے نبوت کی ڈیوٹی پر فائز ہوچکے ہیں اور پہلے کے نبی ہیں اور اب حضورﷺ کی بعثت عامہ سے نبی غیر تشریعی رہ گئے؟۔ معاذاﷲ!
البتہ اہل کشف، نبوت اور رسالت کو اس کے لغوی معنی میں بھی جو تمام خلق میں علی قدر مراتب ساری ہے۔ اپنے خاص رنگ میںاستعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی اس کا قائل نہیں کہ نبی اور رسول کو غیر انبیاء پر اطلاق کرنا جائز ہو اور حضورﷺ کے بعد کوئی شخص مدعی نبوت ہو اور اس کی تکفیر نہ کی جائے۔ شیخ اکبر فتوحات کے باب ۱۵۵ میں فرماتے ہیں کہ: ’’اعلم ان النبوۃ التی ھی الاخبار عن شئی ساریۃ فی کل موجود عند اھل الکشف والوجود لکنہ لا یطلق علی احدمنہم اسم نبی ولا رسول الا علی الملئکۃ الذین ھم رسل فقط (کبریت الاحمر علی حاشیۃ یواقیت ج۱ ص۱۱۸)‘‘ {جان تو کہ نبوت جس کے معنی مطلق خبر دینے کے ہیں وہ اہل کشف کے نزدیک تمام موجودات میں ساری ہے۔ (کیونکہ ہر مخلوق کم از کم اپنے صانع واجب الوجود کی ہستی کی خبر دے رہا ہے) لیکن کسی پر نبی اور رسول کے اسم کا اطلاق نہیں کر سکتے۔ البتہ فرشتوں پر صرف رسل کا اطلاق آیا ہے۔}
اور (فتوحات ج۲ ص۱۰۰) میں ہے کہ: ’’فالنبوۃ ساریۃ الی یوم القیامۃ فی الخلق وان کان التشریع قد انقطع فالتشریع جزء من اجزاء النبوۃ‘‘ {یعنی لغوی نبوت تو قیامت تک تمام خلق میں ساری ہے۔ ہاں تشریع منقطع ہوگئی اور تشریع حقیقی نبوت کے اجزاء میں سے ایک جز ہے۔ یعنی حقیقت نبوت کا آخری جز تشریع ہے۔}
پھر ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ: ’’وھذہ النبوۃ ساریۃ فی الحیوان مثل قولہ واوحی ربک الی النحل‘‘ یعنی یہ نبوت حیوان میں بھی ساری ہے۔ جیسا کہ کلام مجید میں ہے کہ اﷲتعالیٰ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی غرض لغوی معنی کے رو سے نبوت غیر تشریعی ہر مخلوق میں موجود ہے۔ اس میں مرزاقادیانی کی کون سی تخصیص ہے؟۔ اور تمام کمالات اور اوصاف نبوت صدق دیانت، امانت، تقویٰ، عبادت، زہد، توکل، رویا، صالحہ، الہام وغیرہ وغیرہ قیامت تک باقی رہیں گے۔ یہ سب لغوی نبوت کے اعلیٰ افراد ہیں۔ بلکہ حقیقی نبوت کے اجزاء میں سے ہیں۔ لیکن پھر بھی حقیقت نبوت شرعیہ ندارد ہے ۔ کیونکہ حقیقت نبوت کا آخری جز تشریع ہے اور تشریع منقطع ہوچکی اور جب تک کسی شے کے جمیع اجزاء موجود نہ ہوں وہ شے موجود نہیں ہوسکتی۔