مبحث۴۲)‘‘ {ولایت کی انتہا نبوت کی ابتداء کو کبھی نہیں پاسکتی۔ اگر کوئی ولی اس چشمہ کی طرف بڑھے۔ جس سے انبیاء علیہم السلام لیتے ہیں۔ تو جل کر خاکستر ہوجائے اور شیخ اکبر نے فرمایا ہے کہ جان تو کہ اﷲتعالیٰ نے حضورﷺ کے بعد قیامت تک تمام مخلوق پر رسالت کا دروازہ بند کر دیا ہے اور ہم کو محمدﷺ سے کوئی مناسبت نہیں۔ کیونکہ حضورﷺ ایسے مرتبے میں ہیں کہ ہمارے لئے حاصل ہونا ممکن نہیں اور شیخ نے ترجمان الاشواق کی شرح میں کہا ہے کہ جان تو کہ مقام نبی میں داخل ہونا ہمارے لئے ممتنع ہے۔ انتہاء معرفت جو بطریق ارث ہم حاصل کر سکتے ہیں وہ صرف مقام نبی کی طرف نظر کرنا ہے۔ جیسے کوئی اسفل جنت سے اعلیٰ علیین والوں کی طرف یازمین پر رہنے والا آسمان کے تاروں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اور شیخ ابویزید کے متعلق یہ واقعہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ ان کو سوئی کے ناکے کے برابر صرف تجلی مقام نبوت سے منکشف ہوئی تھی۔ وہ جلتے جلتے بچ گئے۔ مقام نبوت میں داخل ہونا تو ممکن ہی نہیں۔}
۱۸… ’’اعلم انہ لاذوق لنا فی مقام النبوۃ لنتکلم علیہ وانما نتکلم علی ذالک بقدر ما اعطینا من مقام الارث فقط فانہ لا یصح منا دخول مقام النبوۃ (یواقیت ج۲ ص۷۲ مبحث ۴۲)‘‘ {جان تو کہ ہم کو مقام نبوت میں کچھ ذوق نہیں ہے کہ اس کے متعلق کچھ کلام کر سکیں ہم تو صرف اس پر اس قدر کلام کر سکتے ہیں۔ جس قدر ہم کو مقام ارث سے عطاء کیاگیا ہے۔ کیونکہ مقام نبوت میں ہمارا داخل ہونا ممکن نہیں۔}
نوٹ! شیخ اکبر محی الدین ابن العربی اور شیخ عبدالوہاب شعرانی کے ان اقوال سے اظہر من الشمس ہے کہ حضورﷺ کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ بند ہے اور قیامت تک اوامر ونواہی الٰہیہ کے دروازے مسدود، اب فرشتہ امر الٰہی کا ایک فقرہ بھی لے کر نازل نہیں ہوسکتا اور نبی کی حقیقت میں وحی تشریع کا لانا داخل ہے۔ نبی اور نبوت کا اطلاق جب ہی ہوگا جب وحی تشریع اس پر نازل ہو۔ ولی اور نبی کی وحی میں یہی فرق ہے کہ نبی پر وحی تشریع ہوتی ہے اور وحی اولیاء میںتشریع نہیں۔ حضورﷺ کے بعد نبی کا نام زائل ہوچکا۔ جو حضورﷺ کے بعد امرونہی، شریعت، نبوت کا دعویٰ کرے اس کی گردن مارنی چاہئے۔ محض دھوکہ باز ہے یا ابلیس لعین سے ہمکلام ہوتا ہے۔ شیطان اس کی طرف وحی کرتا ہے۔ ان الشیطین لیوحون الی اولیائہ! اب وحی الہام، وحی مبشرات، تعریفات، کشف تام کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہا۔ جن میں امر ونہی کچھ نہیںہوتا۔ چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام پر بھی بعد نزول وحی الہام، کشف تام ہوگا اور بطریق تعریف معانی کلام اﷲ حاصل کریں گے۔ باوجود یہ کہ وہ اپنے زمانہ کے نبی ہیں اور حضورﷺ سے پہلے وحی تشریع نازل ہوتی تھی۔ لیکن بعد نزول وحی تشریع نازل نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ نبوت کی ڈیوٹی پر نہ ہوں گے۔ حضورﷺ کی بعثت عامہ سے ان کی نبوت کی ڈیوٹی ختم ہوگئی۔ اب امت محمدی کی طرف رسول ہوکر تشریف نہ لائیں گے۔ بلکہ خلیفہ اور امام کی حیثیت سے ہوں گے۔ لہٰذا ہر دو اعتبار کا لحاظ کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بعد نزول کے بلکہ حضورﷺ کی بعثت کے بعد سے نبی غیر تشریع بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی وہ نبی جس کی نبوت کی ڈیوٹی ختم ہوگئی۔ اب اپنی نبوت کی ڈیوٹی پر نہ ہو اسی وجہ سے اس پر وحی تشریع نازل نہیں کی جاتی۔ بلکہ صاحب الزمان رسولﷺ کی شریعت کے تابع ہوں گے۔ وہ اپنے زمانہ کے نبی ہیں۔ صاحب الزمان رسول یعنی اس زمانہ میں نبوت کی ڈیوٹی پر نہیں ہوں گے۔ ورنہ منصب نبوت کے لئے شریعت لازمی ہے بلکہ منصب نبوت کی حقیقت میں داخل ہے۔ نبوت کی ڈیوٹی ختم ہوجانے سے اور اس وقت وحی شریعت نہ ہونے سے ان کا نبوت سے معزول ہوجانا لازم نہیں آتا۔ جیسا کہ ہم مفصل معلوم کر چکے۔ یہ تو مرزائیت کی عقل کا نتیجہ ہے اور بس، چونکہ شیخ اکبر محی الدین ابن العربی تین رسولوں کے حضورﷺ کے بعد زندہ