للشیخ عبد الوہاب الشعرانی ج۲ ص۳۸ مبحث ۳۵ مطبوعہ مصر)‘‘ {ارتفاع نبوت کے بعد آج سوائے معرفتوں کے اولیاء اﷲؒ کے لئے کچھ باقی نہیں رہا اور امر الٰہیہ اور نواہی کے دروازے بند کر دئے گئے۔ پس جو شخص محمدﷺ کے بعد اس کا دعویٰ کرے وہ شریعت کا مدعی ہے۔ جو اس کی طرف وحی کی گئی پھر برابر ہے کہ وہ ہماری شریعت کے موافق ہو یا مخالف۔ پس اگر وہ مکلف یعنی عاقل بالغ ہے تو اس کی گردن ماریں گے اور نہیں تو (اگر کوئی پاگل ہے تو) اس سے کنارہ کشی کریں گے۔}
۲… ’’قال فی الباب العاشر وثلثمائۃ اعلم ان الوحی لاینزل بہ الملک علی غیر قلب نبی اصلا ولایأمر غیر نبی بامر الٰہی جملۃ واحدۃفان الشریعۃ قد استقرت تبین الفرض والواجب والمندوب والحرام والمکروہ والمباح فانقطع الامر الا لٰہی بانقطاع النبوۃ والرسالۃ (ازیواقیت مبحث۳۵ ج۲ ص۳۸)‘‘ {شیخ اکبر نے فتوحات کے باب ۳۱۰ میں فرمایا ہے کہ: جان تو کہ ہر گز ہرگز غیر قلب نبی پر فرشتہ وحی لے کر نہیں نازل ہوتا اور غیر نبی کو امر الٰہی کا ایک جملہ بھی امر نہیں ہوتا اس لئے کہ شریعت مقرر ہوچکی اور فرض، واجب، مندوب، حرام، مکروہ، مباح سب واضح طور پر بیان ہو چکے۔ پس انقطاع نبوت اور رسالۃ کے ساتھ امر الٰہی کا بھی انقطاع ہوگیا۔}
۳… ’’قال الشیخ ایضاً فی الباب الحادی والعشرین من الفتوحات من قال ان اﷲ تعالیٰ امرہ بشئیٍ فلیس ذلک بصحیح انما ذالک تلبیس لان الامر من قسم الکلام وصفۃ وذالک باب مسدوددون الناس… وان کان صادقاً فیما قال انہ سمعہ فلیس ذالک عن اﷲ وانما ھومن ابلیس فظن انہ عن اﷲ لان ابلیس قد اعطاہ اﷲ تعالیٰ ان یصور عرشاً وکرسیاً وسماء یخاطب الناس منہ کما مرفی مبحث خلق الجن (ازیواقیت ج۲ ص۳۸ مبحث ۳۵)‘‘ {شیخ اکبر نے فتوحات کے باب ۲۱ میں فرمایا ہے کہ جوشخص یہ دعویٰ کرے کہ اﷲتعالیٰ نے مجھ کو فلاں شئے کا امر کیا ہے یہ ہر گز صحیح نہیں۔ یہ محض دھوکہ ہے۔ اس لئے کہ امر کلام کی قسم اور اس کی صفت ہے اور لوگوں پر اس کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور اگر وہ اپنے قول میں سچا ہی ہے کہ اس نے امر الٰہی کو سنا ہے تو یہ اﷲتعالیٰ سے ہر گز نہیں بلکہ ضرور ابلیس لعین سے ہے۔ اس نے اس امرابلیسی کو اﷲتعالیٰ کا امر سمجھا۔ کیونکہ شیطان عرش وکرسی وآسمان متتخیل کراتا ہے اور پھر وہاں سے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے۔ جیسا کہ مبحث خلق الجن میں اس کی بحث گذر چکی ۔ }
۴… ’’قال فی الباب العاشر وثلثمائۃ… فان قال لم یجئنی بذلک ملک وانما امر فی اﷲتعالیٰ بہ من غیرو اسطہ وقلنا لہ ھذا اعظم من الاوّل فانک اذن ادعیت ان اﷲ تعالیٰ کلمک کما کلم موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام ولا قائل بذالک لا من علمأالنقل ولا من علماء الذوق (ازیواقیت ج۲ ص۳۸ مبحث ۳۵)‘‘ {شیخ اکبر نے فتوحات کے باب ۳۱۰ میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر وہ شخص یہ دعویٰ کرے کہ میرے پاس امر الٰہی فرشتہ نہیں لایا ۔ بلکہ اﷲ نے بلا واسطہ امر کیا ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ توپہلے دعویٰ سے بھی بڑھ کر دعویٰ ہے۔ کیونکہ اس وقت تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اﷲ نے اس سے بات چیت کی جیسے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا اور اس کائنات کا کوئی قائل نہیں نہ علماء نقل اور علماء ذوق۔ }
۵… ’’اعلم ان وحی الانبیاء لا یکون الاعلی لسان جبرئیل علیہ السلام یقظۃ ومشافہۃ واما وحی الاولیاء فیکون علی لسان ملک الالہام (یواقیت ج۲ ص۸۳ مبحث ۴۶)‘‘
’’فان قلت ھل ینزل ملک الالہام علی احد من الاولیاء بامراونہی فالجواب ان ذالک ممتنع کما قالہ الشیخ فی الباب العاشر وثلثمائۃ فلا ینزل ملک الالہام علی غیر نبی بامرونہی ابدا وانماللاولیاء وحی