ہی خاتم ذاتی اور خاتم مرتبی بھی ہیں اور آپﷺ کو فقط خاتم زمانی کا اعتقاد کرنا یہ تو عوام کا خیال ہے۔ کیونکہ صرف نفس خاتمیت زمانی میں کچھ فضیلت نہیں۔
الغرض مولانا مرحوم ختم زمانی کو واجب الایمان اور آیت خاتم النبیین کا بدلالت مطابقی یا بدلالت التزامی منطوق مانتے ہوئے ایک دوسرے معنی بھی ظاہر فرماتے ہیں۔ جس پر علیحدہ طور پر تمام امت کا اجماع بھی ہے۔ افسوس مرزائیوں کا اس میں کیا نفع ہے۔ جو مولانا کی عبارت پیش کر دیتے ہیں۔ یہ تو الٹا ان کی جڑ کاٹ رہے ہیں اور حضورﷺ کے بعد اگر کسی نبی کے ہونے کا تأمل کرے اس کو بھی کافر فرما رہے ہیں۔
عقیدہ مولانا عبدالحی صاحب لکھنویؒ
مولانا زجر الناس میں لکھتے ہیں کہ: ’’لکن ختم نبیناﷺ الیٰ جمیع الانبیاء جمیع الطبقات بمعنی انہ لم یعط النبوۃ لاحد فی طبقۃ… لا شبہۃ فی بطلان الاحتمال الثانی وھو ان یکون وجود الخاتم فی تلک الطبقات بعدہ بما ورد انہ لا نبی بعدہ وثبت فی مقرہ انہ خاتم الانبیاء علی الاطلاق والاستغراق‘‘ {لیکن ہمارے نبیﷺ نے جمیع طبقات کے جمیع انبیاء علیہم السلام کو ختم کر دیا۔ یعنی آپﷺ کے بعد کسی طبقہ میں بھی کسی کو منصب نبوت نہ دیا جائے گا… زمین کے طبقات تحتانیہ میں حضورﷺ کے بعد کسی نبی کا اپنے طبقہ کے انبیاء علیہم السلام کے خاتم ہونے کا احتمال بھی باطل ہے۔ اس کے بطلان میں کچھ شبہ نہیں۔ کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور اپنی جگہ (یعنی آیۃ خاتم النبیین میں) یہ بھی ثابت ہوگیا کہ آپﷺ علی الاطلاق والاستغراق یعنی بغیر استثناء تمام انبیاء علیہم السلام کے ختم کرنے والے ہیں۔}
تنبیہ! (رسالہ دافع الوسواس ص۳،۱۳) کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں طبقات تحتانیہ میں ایسے انبیاء علیہم السلام کا موجود ہونا محال نہیں جو حضورﷺ سے پہلے مبعوث ہو چکے ہوں اور حضورﷺ کے زمانہ میں بھی باقی رہے ہوں۔ لیکن حضورﷺ کی بعثت عامہ سے ان کی نبوت کی ڈیوٹی ختم ہوگئی ہو۔ وہ اس وقت نبوت کی ڈیوٹی پر نہ ہوں۔ بلکہ حضورﷺ خاتم النبیین کی امت میں داخل ہوں اور ان پر شریعت نازل نہ ہوتی ہو۔ یعنی صاحب شرع جدید نہ ہوں۔ بلکہ حضورﷺ کی شریعت کے متبع ہوں۔ کیونکہ حضورﷺ کے زمانہ کے بعد کسی پہلے نبی کا موجود ہونا محال نہیں۔ ہاں حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی کا مبعوث ہونا یا پرانا نبی ہی اس امت میں نبی ہونے کی حیثیت سے دوبارہ مبعوث ہو محال ہے اور ص۳میں اس احتمال کو باطل قرار دیا ہے کہ طبقات تحتانیہ کے انبیاء علیہم السلام حضورﷺ کے زمانہ کے بعد ہوں اس احتمال کے متعلق لکھا ہے کہ احتمال اوّل بنصوص متعددہ باطل ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ کسی قسم کے نبی حضورﷺ کے بعد نہیں ہوسکتے۔ مرزائی خوب جانتے ہیں کہ ان حضرات کی تحریروں سے ہمارا مطلب نہیں نکل سکتا۔ محض اغواء جاہلین مقصود ہوتا ہے۔
عقیدہ حضرت شیخ اکبر محی الدینؒ ابن العربی وشیخ عبدالوہاب شعرؒانی
۱… ’’فما بقی للاولیاء الیوم بعد ارتفاع النبوۃ الا التعریفات وانسدت ابواب اوامر الالہیۃ والنواہی فمن ادعاھا بعد محمدﷺ فہو مدع شریعۃ اوحی بہا الیہ سوآء وافق بہا شرعنا اوخالف فان کان مکلفا ضربنا عنقہ والا ضربنا عنہ صفحاً (فتوحات باب۳۱۰ ج۳ ص۳۹ وھکذا فی الیواقیت والجواھر