۴… ’’حصول کمالات نبوت مربعضے افرا دامت رابطریق تبعیت ووراثت لازم نمے آید کہ آن بعض نبی باشد یامساوات بانبی پیدا کندچہ حصول کمالات نبوۃ دیگر است وحصول منصب نبوۃ دیگر چنانچہ تحقیق ایں معنی بہ تفصیل درمکتوبات قدسی آیات حضرت ایشان (حضرت مجدد الف ثانیؒ) مسطوراست (مکتوبات خواجہ محمد معصومؒ ص۲۷۶)‘‘ {بعض افراد امت کو وراثتاً کمالات نبوت حاصل ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ بعض نبی ہوجائے یا نبی کے درجہ کے برابر پہنچ جائے۔ کیونکہ کمالات نبوت کا حاصل ہونا اور ہے اور منصب نبوت کا حاصل ہونا اور ہے۔ چنانچہ اس کی تحقیق بہ تفصیل حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات میں مسطور ہے۔}
عقیدہ حضرت مولانا اسماعیل شہیدؒ
۱… ’’فالا تصاف بکمالات النبوۃ لا یستلزم الاتصاف بالنبوۃ (عبقات ج۱ ص۱۵۹)‘‘ {کمالات نبوت کے حاصل ہوجانے سے منصب نبوت سے متصف ہونا لازم نہیں آتا۔}
۲… ’’پس لابد درمیان ایں امام اکمل ودرمیان انبیاء اﷲ امتیازے ظاہر نخواہد شد الابہ نفس مرتبہ نبوۃ پس درحق مثل ایں شخص تواں گفت کہ اگر بعد خاتم الانبیاء کسے بمرتبہ نبوۃ فائز میشدے ہر آئینہ ہمیں اکمل الکاملین فایز میگردید چنا نکہ درحدیث شریف واردشدہ لوکان بعدی نبی لکان عمرؓ (منصب امامۃ ص۵۴،۵۵)‘‘ {پس اس امام اکمل اور انبیاء اﷲ میں بظاہر کچھ امتیاز معلوم نہیں ہوتا۔ مگر صرف منصب نبوۃ کا پس ایسے شک کے حق میں کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی حضور خاتم الانبیائﷺ کے بعد منصب نبوت کے ساتھ فائز کیاجاتا تو بے شک یہی اکمال الکاملین فائز ہوتا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں عمر فاروقؓ کی شان میں وارد ہے۔ کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓ ہوتے۔}
نوٹ! اور یہ بھی یاد رہے کہ کمالات نبوت سے مراد مشابہ کمالات نبوت ہیں۔ کیونکہ نبوت کے معنی تو یہ ہیں کہ جو کمالات منصب نبوت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ نبی کے سوا دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکتے۔ حضرت مجدد صاحبؒ فرماتے ہیں۔ ’’کمالات حضرات شیخین شبیہ بکمالات انبیاء است علیہم الصلوٰت والتسلیمات (مکتوب ۲۵۱ ج۱ ص۴۱۱)‘‘ اور یہ بھی یاد رہے کہ کمالات نبوت متعدد اور انواع مختلفہ سے ہیں اس لئے نبوت کو جامع ولایت بھی کہاگیا ہے۔ پس وہ کمالات نبوت جو من وجہ کمالات ولایت بھی ہیں۔ قیامت تک وراثتاً جاری ہیں۔ مگر وہ وہی کمالات نبوت جو مختصات بمنصب نبوت ہیں بکلی مسدود ہیں۔ پس وہ جمیع کمالات نبوت جو کمالات ولایت بھی ہیں۔ اولیاء اﷲؒ علی حسب مراتب وہ بھی وراثتاً حاصل فرماتے ہیں۔ نہ وہ وہی کمالات نبوت جو مختصات بمنصب نبوت ہیں۔ اسی لئے مجددؒ صاحب نے فرمایا ہے۔ ’’نبوت عبارت از قرب الٰہی است جل شانہ کہ شائبہ ظلیت ندارد (مکتوب ۳۰۱ج۱ ص۶۳۶)‘‘ یعنی نبوت میں ظلیت کا شائبہ نہیں۔ پس جب نبوت وراثتاً وظلاً حاصل نہیں ہوسکتی تو وہ وہی کمالات نبوت جو منصب نبوت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ کیوں کر وراثتاً وظلاً وکسباً حاصل ہوسکتے ہیں۔
تنبیہ! کمالات نبوت کا مع نبوت کے باسرہا تسلیم کرنا اصل وفروع میں امتیاز اٹھادینا ہے اور درحقیقت یہ ایک زہر ہے۔ جو ظل کا بہانہ کر کے مرزاقادیانی نے ایک غلطی کا ازالہ میں مسلمانوں کو پلانا چاہا ہے۔ ورنہ ایسا شخص دعویٰ نبوت کے علاوہ اصل میں نبی کریمﷺ سے مساوات کا مدعی ہے۔
نبوت کسبی نہیں