مجازی اصطلاح پر دھوکہ نہ کھائیں۔ لغوی طور پر استعمال کرنا بھی پسندیدہ نہیں۔ عام مسلمانوں کو دھوکہ لگتا ہے۔ مگر افسوس مرزائی بے چارے کیا کریں خود مرزاقادیانی ہی بدل گئے۔
حضرت شیخ اکبر محی الدینؒ ابن العربی صاحب فتوحات مکیہ وحضرت مجدد الف ؒثانی وحضرت مولانا شاہ اسماعیل دہلویؒ وحضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ وحضرت مولانا محمد عبد الحی صاحب لکھنویؒ سب متفق ہیں کہ حضورﷺ پر منصب نبوت ختم ہوچکا ہے۔ آپؐ کے بعد کسی کو منصب نبوت عطاء نہ کیا جائے گا۔ غرض تمام صوفیاء اہل کشف کا بھی اس عقیدہ پر اجماع ہے۔ مگر چونکہ مرزائی امت ان پانچوں حضرات کی عبارتیں قطع وبرید کر کے عوام مسلمانوں کے سامنے پیش کر کے اغوا کیا کرتے ہیں۔ لہٰذا انہی کی عبارتیں اس عقیدہ میں پیش کرتا ہوں
عقیدہ حضرت مجدد الفؒ ثانی
۱… ’’باید دانست کہ منصب نبوت ختم برخاتم الرسل شدہ است علیہ وعلی الہ الصلوٰۃ والتسلیمات (مکتوبات ج۱ ص۴۴۸ ، مکتوب۲۶۰)‘‘ {جان لینا چاہئے کہ منصب نبوت حضرت خاتم الرسل محمد مصطفیﷺ پر ختم ہوگیا ہے۔}
۲… ’’نبوت عبارت از قرب الٰہی است جل سلطانہ کہ شائبہ ظلیت ندارد وعروجش روبحق دارد نزولش رو بخلق ایں قرب بالاصالۃ نصیب انبیاء است واین منصب مخصوص بایں بزرگوراں وخاتم ایں منصب سید البشر است حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد از نزول متابع شریعت خاتم الرسل خواہد بود (مکتوب ۳۰۱ ج۱ ص۶۳۶)‘‘ {نبوت قرب الٰہی جل شانہ کا نام ہے۔ جس میں ظلیت کاشائبہ تک نہیں ہوتا ہے۔ اس کے عروج کا منہ خدا کی طرف ہے اور اس کے نزول کا منہ خلق کی طرف ہوتا ہے۔ یہ قرب بالاصالتہ انبیاء کا حصہ ہے اور یہ منصب انہی بزرگوں کے ساتھ مخصوص ہے اور اس منصب کے ختم کرنے والے حضور سید البشرﷺ ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد حضور خاتم الرسلﷺ کی شریعت پر چلیں گے۔}
۳… ’’در شان حضرت فاروقؓ فرمودہ استﷺ لوکان بعدی نبی لکان عمرؓ۰ یعنی لوازم وکمالاتیکہ درنبوۃ درکاراست ہمہ را عمرؓ دارد اماچوں منصب نبوۃ بخاتم الرسلﷺ ختم شدہ است بدولت منصب نبوۃ مشرف نگشت (مکتوب ۲۴ ج۳ ص۳۲۷ ، ۳۲۸)‘‘نیز اسی مکتوب میں ہے۔ ’’مقرراست ہیچ ولی امتے بمرتبہ صحابی آن امت نرسد فکیف بہ نبی آن امت‘‘ {حضورﷺ نے حضرت عمر فاروقؓ کی شان میں فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ یعنی نبوت کے تمام کمالات عمرؓمیں موجود ہیں۔ لیکن چونکہ منصب نبوت حضور خاتم الرسلﷺ پر ختم ہوگیاہے۔ منصب نبوت کے ساتھ مشرف نہیں ہوسکتے۔}
اور (ج۳ ص۳۲۸) میں ہے۔ {یہ امر محقق ہے کہ کسی امت کا کوئی ولی اس امت کے صحابیؓ کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ چہ جائیکہ اس امت کے نبیﷺ کے مرتبہ کو۔}