۱… ’’سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفیﷺ کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت ورسالت کو کاذب وکافر جانتا ہوں۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۸۹، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰)
۲… ’’ماکان لی ان ادعی النبوۃ واخرج عن الاسلام والحق بقوم کافرین (حمامۃ البشریٰ ۱۸۹۴ء ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)‘‘ {مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے نکل جائوں اور کافروں کی جماعت میں جا ملوں۔}
۳… ’’اگر راقم صاحب کی پہلی رائے صحیح ہے کہ میں مسلمان ہوں اور قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں تو پھر یہ دوسری رائے غلط ہے جس میں ظاہر کیاگیا ہے کہ میں خود نبوت کا مدعی اور اگر دوسری رائے صحیح ہے تو پھر وہ پہلی رائے غلط ہے۔ جس میں ظاہر کیاگیا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور قرآن کریم کو مانتا ہوں۔ کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رسالت اور نبوت کا دعویٰ کرتا ہے قرآن کریم پر ایمان رکھ سکتا ہے۔ کیا ایسا وہ شخص جو قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہے اور آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ کو خدا کا کلام یقین کرتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں بھی آنحضرتﷺ کے بعد رسول اور نبی ہوں۔ صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں۔ مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے۔‘‘
(حاشیہ انجام آتھم ص۲۶، خزائن ج۱۱ ص ایضاً ۱۸۹۶ئ)
’’آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبوی سے نبی اﷲ نکلا ہے۔ انہی مجازی معنوں کے رو سے جو صوفیا کرام کی کتابوں میں مسلّم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الٰہیہ کا ہے۔ ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا۔‘‘
(حاشیہ انجام آتھم ص۲۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
۴… ’’آپ کے بعد اگرکوئی دوسرا نبی آجائے تو آپ خاتم الانبیاء نہیں ٹھہر سکتے اور نہ سلسلہ وحی نبوت کا منقطع متصور ہوسکتا ہے… اور اس میں آنحضرتﷺ کی شان کا استخفاف اور نص صریح قرآن کریم کی تکذیب لازم آتی ہے۔ قرآن کریم میں مسیح بن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے… اور حدیث لانبی بعدی بھی نفی عام ہے۔ پس یہ کس قدر جرأت اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کر کے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیائﷺ کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے اور بعد اس کے جو وحی نبوت منقطع ہوچکی تھی۔ پھر سلسلہ وحی نبوت کا جاری کردیا جائے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲، ۱۸۹۹ئ)
نوٹ! مرزائیوں کے چاہئے کہ ان اقوال کو غور سے پڑھیں کہ حضورﷺ کے بعد مدعی نبوت ورسالت کافر ہے۔ مسلمان ہر گز نہیں۔ قرآن کریم پر ہر گز اس کا ایمان نہیں اس میں حضورﷺ کی شان کا استحفاف اور نص صریح قرآن کی تکذیب لازم آتی ہے۔ قرآن کریم میں ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے اور حدیث لانبی بعدی میں بھی نفی عام ہے اور صوفیاء کے لغوی اور