الابتھاج الذی یحصل بسبب الملکات المحمودۃ والمراد بالنار ھی الندامۃ التی تحصل بسبب الملکات المذموما ولیس فی الخارج جنۃ ولا نار فھوز ندیق‘‘ {اگر کوئی شخص ضروریات دین کا اعتراف تو کرتا ہے۔ لیکن بعض ضروریات کی تفسیر صحابہ کرامؓ اور تابعینؓ کی تفسیر کے خلاف کرتا ہے۔ جس پر امت نے اجماع کیا ہے۔ وہ زندیق ہے۔ مثلاً اعتراف کرتا ہے کہ قرآن حق ہے اور اس میں جو جنت اور نار کا ذکر آیا ہے حق ہے۔ لیکن جنت سے مراد صرف ابتہاج ہے۔ جو ملکات محمودہ کے سبب سے حاصل ہوگا اور نار سے مراد صرف ندامت ہے جو ملکات مذمومہ کے سبب سے حاصل ہوگی اور خارج میں جنت اور نار کاکوئی وجود نہیں۔ پس یہ شخص زندیق ہے۔}
۱۰… (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج۱ ص۲۱۲) میں ہے۔ ’’قال ابوحنیفہؒ اقتلو الزندیق سراً فان توبتہ لاتعرف‘‘ {حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ زندیق کو سراً قتل کرو کیونکہ اس کی توبہ نہیں معلوم ہوسکتی۔}
نوٹ! بے شک اہل قبلہ کی تکفیر ناجائز ہے۔ جب تک اصول دین اور ضروریات دین کا انکار نہ کرے اور جب کسی اصل وضروری دین کا انکار کیا تو پھر اہل قبلہ بھی مسلمان نہیں رہ سکتا۔ بلکہ اہل قبلہ ہی نہیں خواہ کسی تاویل جہالت سے انکار کرے یا بالکل انکار کرے۔ مثلاً صلوٰۃ مفروضہ کا انکار کرے اور یہ تاویل کرے کہ صلوا میں صلوٰۃ کے معنی صرف دعا کرنے کے ہیں۔ ہم کو دعا کرنے کا حکم ہے نہ ارکان مخصوصہ اداکرنے کا، اور روزہ کا اس تاویل سے انکار کرے کہ صوموا کے معنی یہ ہیں کہ اپنے نفس کو بری باتوں سے روکو، اور حج کے معنی صرف ارادہ زیارت بیت اﷲ کا رکھے نہ سفر مخصوص اور آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین اور آخرالانبیاء ہونے کا اس تاویل سے انکار کرے کہ بے شک یہ عقیدہ کلمہ شہادت کا جز اور جزو ایمان ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم فخر عالمﷺ کی احادیث اور اجماع امت سے ثابت ہوچکا اور ایک سو پچاس احادیث متواترہ سے بھی یہ عقیدہ ثابت لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ نئی شریعت لانے والے نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ غیر تشریعی نبی حضورﷺ کے بعدآسکتے ہیں۔ یا خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ کی مہر سے انبیاء بنیں گے۔ قس علی ھذا! غرض ایسی تاویلیں ضروریات دین میں کفر سے نہیں بچاسکتیں۔ (شرح معانی الاثار ج۲ ص۸۷ کتاب الحدود باب حدالخمر)اور (فتح الباری ج۸ ص۲۰۹ باب لیس علی الدین امنو وعملو الصلحت جناح)میں ہے کہ اہل شام کی ایک جماعت نے آیت ’’لیس علی الذین امنو وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا‘‘ کی تحریف کر کے شراب کو حلال قرار دیا۔ حاکم شام یزید بن سفیان نے گرفتار کر کے حضرت فاروق اعظمؓ کے پاس بھجوا دئے۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے حضرت علیؓ اور دیگر صحابہؓ وتابعینؓ سے مشورہ کیا بالاتفاق یہ رائے ہوئی کہ پہلے ان سے توبہ لی جائے اگر توبہ کر لیں تواسّی اسّی درے لگائے جائیں ورنہ ان زندیقوں کو قتل کیا جائے۔ اس مسئلہ کو نہایت شرح وبسط کے ساتھ شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا مولوی محمد انورشاہ صاحب صدرالمدرسین مدرسہ عالیہ دیوبند نے اپنے رسالہ اکفار الملحدین میں بیان فرمایا ہے۔
قبل صریح دعویٰ نبوت شریعت کے یعنی ۱۹۰۰ء سے پہلے مرزاقادیانی بھی آنحضرتﷺ کے بعد مطلقاً مدعی نبوت کو کافر کہتے تھے