۲… شرح تحریر میں ہے۔ ’’لاخلاف فی کفر المخالف فی ضروریات الاسلام… وان کان من اھل القبلۃ (منقول ازردالمحتار ، کتاب الصلوٰۃ ج۱ ص۴۱۴ باب مطلب البدعۃ)‘‘ {ضروریات اسلام میں خلاف کرنے والے کی تکفیر میںکسی کو خلاف نہیں۔ اگرچہ وہ اہل قبلہ ہی ہو۔ }
۳… مصائرہ میں ہے۔ ’’صرح فی کتاب المسائرۃ بالاتفاق علیٰ تکفیر المخالف فیما کان من اصول الدین وضروریاتہ کالقول بقدم العالم ونفی حشرالاجساد ونفی العلم بالجزئیات وان الخلاف فی غیرہ (منقول ازردالمحتار کتاب البغاۃ ج۳ ص۳۳۹)‘‘ {ضروریات اسلام واصول دین میں خلاف کرنے والے کی تکفیر پر سب کا اتفاق ہے۔ مثلاً عالم کے قدم کا قائل ہونا۔ حشر اجساد کا انکار جزئیات کے علم کی نفی کرنا (اﷲتعالیٰ سے) اور اختلاف ضروریات اسلام کے غیر میںہے نہ ضروریات اسلام میں۔}
۴… علامہ ابن حزم (کتاب الفصل ج۲ ص۲۷۵) میں لکھتے ہیں۔ ’’صح الاجماع علی ان کل من جحد شیئا صح عندہ بالاجماع ان رسول اﷲﷺ اتیٰ بہ فقد کفر‘‘ {اجماع امت ہے کہ ہر وہ شخص جس نے ایسے امر کا انکار کیا جو اجماعاً ثابت ہوچکا ہو کہ اس امر کو حضورﷺ خدا کی طرف سے لائے ہیں وہ کافر ہے۔}
۵… (نبراس ص۳۴۲) میں ہے۔ ’’اویعتقدھا قبلۃ فی اصطلاح المتکلمین من یصدق بضروریات الدین اے الامور التی علم ثبوتہا فی الشرع واشتھر فمن انکر شیئاً من الضروریات کحدوث العالم وحشر الاجساد وعلم اﷲ سبحانہ بالجزئیات وفرضیۃ الصلوٰۃ والصوم لم یکن من اھل القبلۃ ولو کان مجاھدا بالطاعات‘‘ {متکلمین کی اصطلاح میں اہل قبلہ اس شخص کو کہتے ہیں۔ جو ضروریات دین کی تصدیق کرے اور ضروریات دین وہ امور ہیں جن کا ثبوت حضورﷺ کی شریعت میں معلوم ہوگیا اور ان کا دین محمدی سے ہونا ہر عام وخاص مسلمان جانتا ہو۔ پس جس نے ضروریات میں سے کسی امر کا انکار کر دیا۔ مثلا حدوث عالم، حشر اجساد، اﷲ سبحانہ کا ہر جزئی کو جاننا، فرضیۃ الصلوٰۃ، وصوم وغیرہ وہ اہل قبلہ نہیں اگرچہ عبادتوں میں خوب کوشش کرنے والا ہو۔ }
۶… (ایثار الحق ص۲۴۱) میں ہے۔ ’’ان الکفر ھو جحد الضروریات من الدین اوتاویلہا‘‘ {کفر کیا ہے ضروریات دین کا انکار کرنا یا ان کی کوئی تاویل کرنا۔}
۷… (حاشیہ عبدالحکیم علی الخیالی ص۱۴۸) میں ہے۔ ’’والتاویل فی ضرروریات الدین لا یدفع الکفر‘‘ {ضروریات دین میں تاویل کرنا کفر کو نہیں روک سکتی۔}
۸… (شفاء قاضی عیاض ج۲ ص۲۵۱) میں ہے۔ ’’وکذلک من انکر الجنۃ والنار ا والبعث اوالحساب اوالقیامۃ فہو کافر باجماع للنص علیہ واجماع الامۃ علی صحۃ نقلہ متواترا وکذلک من اعترف بذالک ولکنہ قال ان المراد بالجنۃ والنار والحشرو النشر والثواب والعقاب معنی غیر ظاہر‘‘ {اور ایسے ہی جو شخص جنت یا دوزخ یا بعث یا حساب یا قیامت کا انکار کرے بالاجماع کافر ہے۔ کیونکہ یہ نص سے ثابت اور اس کے نقل کے تواتر پر اجماع امت ہے اور ایسا ہی وہ شخص بھی کافر ہے جو ان امور کا اعتراف تو کرتا ہے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ جنت اور دوزخ اور حشر ونشر وثواب وعقاب سے مراد ظاہر معنی کے غیر ہے۔}
۹… شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ (مسوی شرح مؤطا ج۲ ص۱۳۰) میں لکھتے ہیں۔ ’’ان اعترف بہ ظاہراً لکنہ یفسر بعض ماثبت من الدین ضرورۃ بخلاف مافسرہ الصحابہؓالتابعونؓ واجمعت علیہ الامۃ فہو الزندیق کما اذا اعترف بان القرآن حق ومافیہ من ذکر الجنۃ والنار حق لکن المراد بالجنۃ