کہ اﷲ کے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں اور مجھ پر اور احکام واوامر الٰہی کہ میں لایا ہوں ان سب پر ایمان لاویں۔ جب وہ توحید ورسالت اور سب احکام پر ایمان لے آئے تو ان کے خون اور اموال سب محفوظ ہوگئے۔ مگر حق اسلامی کے ساتھ جو قصاص وحدود کے ذریعہ سے ہو اور ان کا حساب اﷲ پر ہے۔}
’’عن عبادۃ ابن الصامتؓ بایعنا رسول اﷲﷺ علی ان لا نازع الامر اھلہ الاان ترواکفرا بواحاً عند کم من اﷲ فیہ برھان، (متفق علیہ مشکوۃ ص۳۱۹کتاب الامارۃ والقضائ، مسلم ج۲ ص۱۲۵ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ، بخاری ج۲ ص۱۰۴۵ باب قول النبیﷺ سترون بعدی واموراً تنکرونہا)‘‘ {عبادہ بن الصامتؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اﷲﷺ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ ہم اہل الامر کی کبھی مخالفت نہ کریں۔ لیکن جب کفر صریح دیکھو جس پر تمہارے پاس دلیل ہو۔}
منکر ضروریات دین کا حکم
نوٹ! ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جو احکام وعقائد آنحضرتﷺ خدا کی طرف سے لائے ہیں۔ ان سب کی تصدیق کرنا ایمان ہے اور ان امور میں کسی امر کا انکار کرنا کفر ہے۔ لہٰذا وہ احکام وعقائد جن کا ثبوت حضورﷺ کی شریعت میں یقینی طور پر معلوم ہوگیا اور ان کو حضورﷺ کا خدا کی طرف سے لانا قطعاً تواتراً وبالاجماع ثابت ہوگیا اور خاص وعام میں شہرت پکڑ گیا۔ وہ ضروریات اسلام اور اصول دین کہلاتے ہیں۔ پس اگر کوئی شخص ضروریات اسلام میں سے کسی امر کا انکار کرے بالاتفاق کافر ہوجاتا ہے۔ کلمہ شہادت محمد رسول اﷲ میں بھی اجمالاً ومختصراً انہی امور پر ایمان لانے کا اقرار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے معنی یہی ہیں کہ محمدﷺ کی ان سب امور میں تصدیق کرتا ہوں کہ جو وہ خدا کی طرف سے لائے ہیں۔ ہاں وہ امور جن کا ثبوت اور قطعی طور پر حضورﷺ کا لانا معلوم نہیں ہوا ہے۔ ضروریات اسلام میں داخل نہیں ایسے امور کے انکار سے عندالمحققین کافر نہیں ہوتا۔ اس لئے فقہاء ومتکلمین نے ایمان وکفر کی یہ تعریف کی ہے۔ ’’الایمان تصدیق سیدنا محمدﷺ فی جمیع ماجاء بہ من الدین ضرورۃ۰ الکفر تکذیب محمدﷺ فی شئی مما جاء بہ من الدین ضرورۃ (حموی شرح اشباہ نولکشور ص۲۶۳ وشفاء ج۲ ص۳ وغیرھا من کتب العقائد والفقہ)‘‘ الغرض ضروریات دین میں سے کسی امر ضروری کا کہ جس کا دین سے ہونا ہر خاص وعام مسلمان جانتا ہو انکار کرنا ہی باتفاق امت کفر وارتداد ہے۔ تسلی کے لئے (حقیقت الوحی ص۱۲۴، ۱۵۹، خزائن ج۲۲ ص۱۲۷، ۱۶۳) کے اوراق دیکھو مرزاقادیانی ڈاکٹر عبدالحکیم خاں اور چراغ دین جموں والے کو برابر مرتد لکھتے ہیں۔ کیا وہ توحید ورسالت محمدﷺ وقرآن کے قائل نہ تھے یا کلمے کے منکر تھے یا قبلہ کا انکار کردیا تھا؟۔ مگر چونکہ مرزاقادیانی کے نزدیک ایک ضروری دین کا انکار کیا تھا۔ اس وجہ سے ان کو مرتد ہی کہا۔ دیکھو (نہج المصلی مجموعہ فتاوی احمدیہ ج۱ ص۲۶۹) میں ہے۔ ’’واعلم ان عملاً من الاعمال لا یفید لاحد من دون ان یعرفنی ویعرف دعوایٰ ودلائلی‘‘ ’’یعنی کوئی عمل نماز روزہ وغیرہ بغیر میری اور میرے دعوے کی شناخت کے مفید نہیں۔‘‘ کتب عقائد کا فیصلہ ملاحظہ ہو۔
۱… ’’من انکر شیئا من شرائع الاسلام فقد ابطل لا الہ الا اﷲ (السیرالکبیر الامام محمد ج۵ ص۳۶۸)‘‘ {امام محمدؒ سیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ جس نے شرائع اسلام سے کسی امر کا انکار کر دیا۔ اس نے کلمہ توحید لا الہ الا اﷲ کو توڑ دیا۔}