زمانی کو منتفی ہوں۔ بلاشبہ قطعاً اجماعاً کفر ہیں۔ اس لئے ملا علی قاری نے اپنی (موضوعات ص۱۰۰، طبع نور محمدکراچی) میں لکھا ہے۔ ’’وانما الکلام علی فرض الوقوع‘‘ یعنی یہ کلام بطور فرض وقوع کے ہے اور ص۹۹ میں یہ بھی لکھا ’’ولوعاش وبلغ اربعین وصار نبیاً لزم ان لایکون نبیناً خاتم النبیین‘‘ یعنی اگر وہ زندہ رہتے اور چالیس برس کو پہنچتے اور نبی ہوتے تو آخر الانبیاء حضورﷺ کا خاتم النبیین نہ ہونا لازم آجاتا۔ لیکن اس کے بعد جو ملا علی قاری صاحب نے اپنا ایک قیاس ظاہر کیا کہ بعض انبیاء عیسیٰ وخضر والیاس علیہم السلام حضورﷺ کے بعد زندہ ہیں اور حضورﷺ کی امت میں داخل ہیں تو صاحبزادے کا بھی فرضاً ایسا ہی نبی ہونا خاتم النبیین کے مناقض نہ ہوگا۔ مگر یہ قیاس ہرگز صحیح نہیں اس لئے کہ عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کی بعثت بنی اسرائیل کی طرف حضورﷺ سے پہلے ہوچکی اب حضورﷺ کی بعثت عامہ سے ان کی نبوت کی ڈیوٹی ختم ہوگئی۔ اب وہ اس وقت نبوت کی ڈیوٹی پر نہیں ہیں۔ بلکہ حضورﷺ خاتم النبیین ﷺ کی امت میں داخل ہیں اور اسی کو شیخ اکبر محی الدین ابن العربی نبی غیر تشریعی کہتے ہیں یعنی وہ نبی جن کی بعثت اور نبوت کی ڈیوٹی حضورﷺ کی بعثت سے ختم ہوگئی اور وہ حضورﷺ کے بعد زندہ اور حضورﷺ کی امت میں داخل ہیں۔ اب ان پر شریعت نازل نہیں ہوتی ورنہ شریعت تو لازمہ نبوت ہے۔ بغیر شریعت کے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اس کی بحث نبوت کی حقیقت کے بیان میں آئے گی۔ لیکن صاحبزادے کی بعثت نبوت حضورﷺ کے بعد فرض کی جاتی ہے۔ جو خاتم النبیین کے صریح مخالف ہے۔ لہٰذا ملاصاحب کا عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ پر قیاس کرنا بالکل غلط ہے۔ چنانچہ ان کی یہ عبارت ہے۔ ’’لوعاش ابراہیم وصار نبیاً وکذ،الوصار عمرؓ نبیاً لکان من اتباعہ علیہ السلام کعیسی والخضر والیاس علیہم السلام فلا یناقض قولہ تعالیٰ خاتم النبیین اذ المعنی انہ لایأتی نبی بعدہ ینسخ ملتہ ولم یکن من امتہ ویقوی حدیث لوکان موسیٰ علیہ السلام حیا لماوسعہ الااتباعی (موضوعات ص۱۰۰)‘‘ اگر لوعاش سے نبی غیر تشریعی کا امکان نکلتا ہے تو دوسری صحیح حدیث لوکان موسیٰ سے نبی تشریعی کا بھی احتمال ہوگا۔ عیسیٰ والیاس علیہم السلام وغیرہما مستقل نبوت وبعثت پر فائز ہوچکے ہیں۔ اس لئے ان کو حضورﷺ کے بعد بھی اپنے اپنے زمانہ کے یا غیر تشریعی نبی کہا جا سکتا ہے لیکن حضورﷺ کے بعد جب آپؐ کا ہی اتباع لازم ہے اور آپ ﷺ ہی کی قیامت تک ڈیوٹی ہے۔ تو حضورﷺ کے بعد پیدا ہونے والا نبی ہو ہی نہیں سکتا۔ یعنی اس کو منصب نبوت مل ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا ملا کے کلام میں لکان من اتباعہ وینسخ ملتہ وغیرہ بھی تعلیق علی المحال ہے۔ کیونکہ نبی کو اپنی ہی وحی کا اتباع فرض ہے۔ خواہ پہلی شریعت کے موافق ہو یا مخالف، دوسرے نبی کی وحی کا اتباع نہیں کرسکتا۔ ہاں جس امر میں وحی نہ ہوئی ہو یا اس کی وحی کے خلاف نہ ہو تو اتباع کرسکتا ہے۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام سے فرمایا: ’’افعصیت امری (طہ:۹۳)‘‘ اور حضورﷺ کو ارشاد ہوا ’’فبہدا ھم اقتدہ (انعام:۹۰)‘‘ ’’ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفاً (النحل:۱۲۳)‘‘ اگر بعد کے نبی کی شریعت پہلے نبی کی شریعت کے ہر حکم میں موافق ہے تو بعد کا نبی پہلے رسول کی شریعت کا قائم کرنے والا مشرع لہ کہلائے گا۔ ورنہ مشرع جدید ہوگا۔ لہٰذا ایک وقت میں جو نبی ہوگا وہ امتی نہیں جو امتی ہوگا وہ نبی نہیں۔ ’’الضدان لا یجتمعان فی زمان واحد کما جاء فی‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۷۵، خزائن ج۳ ص۴۱۰)
لیکن باوجود اس بات کے ملا علی قاری ضروریات دین اور متواترات کے خلاف کا ارادہ نہیں رکھتے۔ حضورﷺ کے بعد منصب نبوت کے دعویٰ کرنے والے کو اجماعاً قطعاً کافر کہتے ہیں۔ یہ تو محض فرض وقوع میں بحث آپڑی تھی۔ اس میں بھی غلطی کھا گئے۔ یا ملا کی مراد صارنبیاً