جواب: علامہ نووی نے تہذیب الاسماء میں اس حدیث کو باطل اور جسارت کہا ہے اور ابن عبدالبر نے اس کا انکار کیا۔ (انجاح الحاجہ علی ابن ماجہ ص۱۰۸)
اور علامہ قسطلانی نے اس کو ضعیف بتایا اور اس کا راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان بالکل متروک الحدیث ہے۔ (تقریب التہذیب ج۱ ص۳۱، روح المعانی ج۲۲ ص۳۱ زیر آیت ولکن رسول اﷲوخاتم النبیین، ابن ماجہ ص۱۰۸) کے حاشیہ میں اسی حدیث کے اوپر شاہ عبدالغنی محدث دہلویؒ نے بھی لکھا ہے۔ ’’فی سندہ ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان العبسی ھو متروک الحدیث‘‘ دوسرے اس حدیث میں اگر آپؐ کے بعد نبوت کے ملنے کا امکان نکلتا ہے تو ’’لوکان فیھما الہۃ الا اﷲ لفسدتا (الانبیائ:۲۲)‘‘ میں بھی دو خدا ہونے کا امکان لازم آتا ہے اور ’’ان کان للرحمن ولد فانا اوّل العابدین (زخرف:۸۱)‘‘ میں خدا کے بیٹا ہونے کا امکان بھی لازم آئے گا۔ کیونکہ بعد تقدیر موت کے حیاۃ محال ہے اور تعلیق علی المحال، محال ہوتا ہے۔ پس بعد تقدیر موت کے، حیات ابراہیم محال ہے۔ لہٰذا ان کا نبی ہونا محال ہوا او راس پر جو بھی معلق کیا جائے گا خواہ فی نفسہ ممکن ہی ہو وہ بھی محال ہوگا۔ کیونکہ معلق علی المحال محال ہے۔ لہٰذا اس کے بعد دوسرا جملہ شرطیہ’’ لوعاش لا عتقت اخوالہ من القبط وما استرق قبطی (ابن ماجہ ص۱۰۸ باب ایضاً)‘‘ میں بھی جزاء ممتنع الوقوع ہوگئی۔ یعنی ابراہیم کا نبی ہونااور قبطیوں کا بھی غلامی میں نہ آنا۔ سب کا وقوع ممتنع ہوگیا کیونکہ لو عربی میں فرض محال کے لئے آتا ہے اور نیز آیت ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب:۴۰)‘‘ میں چونکہ لاکن کا ماقبل مابعد کے مخالف اور ان میں نفیاً وثباتا تغائر ضروری ہے۔ یعنی جبکہ آپؐ خاتم النبیین ہیں تو آپؐ کسی بالغ ادمی کے نسبی باپ بھی نہیں ہو سکتے اور اگر بالفرض کسی بالغ کے نسبی باپ ہوں تو آپﷺ خاتم النبیین نہیں رہ سکتے۔ لہٰذا اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ اگر ابراہیم بالفرض زندہ رہتے تو نبی ہوتے تو پھر آپؐ خاتم النبیین نہ رہتے اور جب آپؐ خاتم النبیین نہ رہے تو کلام الٰہی کاذب ٹھہرتا ہے۔ جو محال ہے۔ لہٰذا ابراہیم کا قبل مبلغ رجال موت ضروری تھی۔ تیسرے ابن ماجہ میں اس روایت سے پیشتر عبداﷲ بن اوفیٰ کا اثر بیان کیا ہے۔ جس کو (بخاری نے اپنی صحیح ج۲ ص۹۱۴، باب من سمی باسماء الانبیائ) میں بھی لیا ہے۔ ’’قال مات وھو صغیر لوقضیٰ ان یکون بعد محمدﷺ نبی لعاش ابنہ ولکن لانبی بعدہ‘‘ یعنی ابراہیم بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ اگر حضورﷺ کے بعد کوئی نبی مقدر ہوتاتو وہ زند رہتے۔ لیکن حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ گونبی کے بیٹے کو نبی ہونا کوئی ضروری نہیں۔ مگر جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میںخدا تعالیٰ نے نبوت کو منحصر کیا تھا اور ان کو یہ فضیلت عطا کی تھی۔ ’’وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ (العنکبوت:۲۷)‘‘ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو نبوت کے لئے ظرف بنادیا ہے تو اسی طرح خداوند عالم کو حضورﷺ کی زبان سے حضورﷺ کی بھی یہ فضیلت اور ابراہیم علیہ السلام کا صرف قابلیت مرتبہ ظاہر کرنا مقصود ہے۔ یعنی یہ کلام بطور فرض وقوع کے ہے۔ صرف مرتبہ قابلیت ابراہیم ظاہر کرنا منظور ہے۔ لیکن چونکہ اس صفت کا وقوع حضورﷺ کی ایک صفت اعلیٰ کے منافی تھا۔ یعنی وصف ختم نبوت کے لہٰذا حضورﷺ کی یہ فضیلت اور ابراہیم کایہ مرتبہ وقوع میں نہیں لایاگیا اور موت مقدر کی گئی۔ اس میں آپؐ کا وصف اعلیٰ خاتم النبیین بھی محفوظ رہا اور ابراہیم کی فضیلت ظاہر ہوگئی۔ ہاں حضورﷺ کے بعد اگر کسی کو منصب نبوت کا ملنا مقدر ہوتا تو حضورﷺ کی یہ فضیلت بھی وقوع میں آتی اور صاحبزادے کو نبی بنایا جاتا اور حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں۔ بوقت وفات ابراہیم ’’قد کان ملا مہدہ ولو بقی کان نبیاً ولکن لم یبقیٰ لان نبیکم اخرالانبیائﷺ (انجاح الحاجہ برابن ماجہ ص۱۰۸)‘‘ یا ابوشیبہ متروک الحدیث کی روایت میں الفاظ ٹھیک محفوظ نہیں رہے بلکہ یوں ہوگا۔ ’’لوکان بعدی نبی لعاش ابراھیم‘‘ ورنہ ایک متروک الحدیث کی روایت احادیث متواترہ اور نصوص قطعیہ کے کیسے معارض ہوسکتی ہے اور ایسے معنی جو ختم