اور نیز (کنز العمال ج۱۲ ص۲۷۰ حدیث۳۴۹۹۹) میں بحوالہ (ویلمی وابن النجار والبزاز)اور حضرت عائشہؓ سے مرفوعاً روایت ہے۔ ’’عن عائشۃؓ قالت قال رسول اﷲانا خاتم الانبیاء ومسجدی خاتم مساجد الانبیاء ‘‘ {یعنی حضورﷺ نے فرمایا کہ میں خاتم الانبیاء ہوں او ر میری مسجد انبیاء کے مسجدوں کی خاتم ہے۔} اس حدیث سے یہ شبہ بھی جاتا رہا جو ابوہریرہؓ کی روایت (مسلم ج۱ ص۴۴۶، باب فضل الصلوۃ بمسجدی مکۃ والمدینہ) میں صرف ’’انا اٰخر الانبیا ومسجدی اٰخر المساجد‘‘ کیونکہ اس میںبھی انبیاء علیہم السلام ہی کی مساجد مراد ہے۔
وسوسہ سیزدہم
جیسے حدیث ’’اذا ھلک کسریٰ فلا کسرے بعدہ واذ ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ (بخاری ج۲ ص۹۸۱، باب کیف کان یمین النبیﷺ، مسلم ج۲ ص۳۹۶ فضل فی ھلاک کسری وقیصر)‘‘ سے یہ مراد ہے کہ اگر چہ قیصر وکسریٰ باقی ہوں گے مگر اسلام کے زیر نگیں ہوکر رہیں گے۔ خود مختار سلطنتیں باقی نہ رہیں گی۔ اسی طرح لانبی بعدی کو سمجھو کہ حضورﷺ کے بعد مستقل صاحب شریعت جدیدہ نبی نہ ہوں گے۔ بلکہ آپؐ کی شریعت کے تابع نبی ہوسکتے ہیں۔
جواب: جب قریش مسلمان ہوگئے تو ان کو اپنی تجارتوں کا خوف ہوا کہ اب ہمارا یمن اور شام میں داخلہ بند کر دیا جائے گا۔ کیونکہ قریش سردی کے زمانہ یمن اور گرمی کے زمانہ میں شام کا سفر کرتے تھے۔ ’’کما قال اﷲتعالیٰ رحلۃ الشتاء والصیف (قریش:۲)‘‘ اس پر ان کی تسلی کے لئے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ تمہاری تجارت گاہیں ان کے وجود ہی سے پاک کر دی جائیں گی۔ قیصروکسریٰ کسی خاص آدمی کانام نہیں ہے۔ بلکہ جاہلیت میں فارس اور روم کے کافر بادشاہ کے لقب تھے۔ اگر مملکت فارس قبضہ اسلام میں آجائے تو کسریٰ کا لقب بھی جاتا رہے گا اور مملکت روم کے آجانے سے لقب قیصر بھی جاتا رہے گا۔ اگرچہ وہ بعض دوسرے ممالک کے بادشاہ رہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ کسریٰ وکسرویت کا توبالکل خاتمہ ہوگیا اور قیصر نے ملک شام چھوڑ کر اور وہاں سے بھاگ کر کسی اور جگہ پناہ لی۔ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ امام شافعیؒ اور تمام علمائؒ نے فرمایاہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ کسریٰ عراق میں اور قیصر شام میں باقی نہ رہے گا۔ جیسا کہ حضورﷺ کے زمانہ میں تھا۔ پس حضورﷺ نے ان کی سلطنت کے انقطاع کی خبردی کہ ان دونوں اقلیموں میںان کی سلطنت نہ رہے گی۔ ’’قال الشافعیؒ وسائر العلماء معناہ لایکون کسریٰ بالعراق ولا قیصر بالشام کما کان فی زمنہ ﷺ فاعلمنا بانقطاع ملکہما فی ھذین الاقلیمین… الخ!(مسلم ج۲ ص۳۹۶حاشیہ)‘‘ لہٰذا یہ حدیث بالکل اپنے ظاہر ی معنی پر ہی مستعمل ہے۔ اس میں مرزائی دھوکہ کا شائبہ بھی نہیں۔
وسوسہ چہاردہم
(ابن ماجہ ص۱۰۸، باب ماجاء فی الصلوٰۃ علیٰ ابن رسول اﷲﷺ ذکروفاتہ) میں حدیث ہے کہ رسول اﷲﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کے انتقال پر فرمایا تھا۔ ’’لوعاش ابراھیم لکان نبیاً‘‘ یعنی ابراہیم اگر زندہ رہتے تو نبی ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ کے بعد نبی ہوسکتا ہے اور چونکہ آیتہ خاتم النبیین بہت برس پہلے نازل ہوچکی تھی۔ معلوم ہوا کہ آپؐ کے بعد آپؐ کے تابع نبی کا ہونا خاتم النبیین کے منافی نہیں۔