جب تک کسی حقیقت کے جمیع اجزاء موجود نہ ہوں وہ حقیقت موجود نہیں ہوسکتی۔ یہ صرف مرزائیت کی عقل ہے کہ وہ لوگ اس بدیہی چیز کو بھی نہیں سمجھتے۔
وسوسہ دوازدہم
حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یہ قول مروی ہے کہ: ’’قولوا خاتم النبیین ولا تقولو الانبی بعدہ (تکملہ مجمع البحار ج۵ ص۵۰۲، درمنثور ج۵ ص۲۰۴)‘‘ یعنی خاتم النبیین تو کہو اور لا نبی بعدہ مت کہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث لانبی بعدہ صحیح نہیں ہے۔ ورنہ انکار کی کون سی وجہ ہے۔
جواب: یہ اثر عائشہؓ منقطع الاسناد ہے۔ بخاری ومسلم کی احادیث مرفوعہ متواترہ کے مقابلہ میں حجت نہیں اور حدیث لانبی بعدی اس قدر صحیح ہے کہ (کتاب البریہ حاشیہ ص۱۹۹، خزائن ج۱۳ ص۲۱۷) میں خود مرزاقادیانی مقر ہیں کہ: ’’حدیث لانبی بعدی ایسی مشہور ہے کہ اس کی صحت میں کسی کو کلام نہیں۔‘‘ بناء برتسلیم جواب یہ ہے کہ یہ باعتبار نزول عیسیٰ علیہ السلام کے فرمایا ہے۔ تاکہ کوئی شخص اپنی سطحی نظر اور کم فہمی سے اجماعی عقیدہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کا انکار نہ کر بیٹھے کیونکہ عوام کے عقائد کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ اسی (تکملہ مجمع البحارج۵ ص۵۰۶) میں اس کی تصریح موجود ہے اور مرزامحمودقادیانی نے بھی (حقیقت النبوۃ ص۱۹۰) میں حدیث لانبی بعدی کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے یہی جواب دیا ہے اور امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس پر ایک باب مستقل باندھا ہے اور (کتاب العلم ج۱ ص۲۴، باب من خص بالعلم قوماً دون قوم) میں کئی حدیثیں روایت کی ہیں کہ جب اس بات کا اندیشہ ہو کہ قاصر الفہم خرابی میں مبتلا ہوجائیں گے تو امر مختار کے اظہار کو ترک کر دے۔ ’’حدثو الناس بما یعرفون اتحبون ان یکذب اﷲ ورسولہ‘‘ {یعنی حضورﷺ نے فرمایا کہ لوگوںکو ان کے فہم میںآنے والی حدیثیں بیان کرو کیا تم پسند کرتے ہو کہ وہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی تکذیب کریں۔} اس کی شاہد دوسری روایت یہ ہے کہ کسی شخص نے حضرت مغیرہؓ ابن شعبہ کے سامنے کہا تھا ۔ ’’خاتم الانبیاء لا نبی بعدہ تو مغیرہ نے فرمایا حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فانا کنا نحدث ان عیسیٰ علیہ السلام خارج فان ھوخرج فقد کان قبلہ وبعدہ (درمنثور ج۵ ص۲۰۴)‘‘ {یعنی جب تم کہو تو تمہارے لئے خاتم الانبیاء کہہ دینا کافی ہے۔ لانبی بعدہ کہنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ہم سے حدیث بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے۔ تو وہ آپؐ سے پہلے بھی ہوئے اور بعد میں بھی ہوں گے۔} مطلب صاف اور ظاہر ہے کہ کلمہ لا نبی بعدہ سے چونکہ بظاہر یہ ایہام بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ پہلے کا کوئی نبی جو پہلے مبعوث ہوچکے ہیں۔ حضورﷺ کے بعد موجود نہیں رہ سکتے اور خاتم النبیین میں یہ ایہام نہیں۔ جیسا کہ مفصل معلوم ہوچکا لہٰذا بوقت اندیشہ ایہام خلاف سے بچنے کے لئے خاتم النبیین پر اکتفاء کرنا مقصود کے اداکرنے کے لئے کافی ہے کہ آپؐ آخر الانبیاء ہیں۔ آپؐ کے بعد کسی کو منصب نبوت عطا نہ ہوگا اس میں ایہام خلاف کا اندیشہ نہیں۔ ورنہ ختم نبوت کے متعلق حضرت عائشہؓ کی صریح اور صحیح حدیث موجود ہے۔ ’’عن عائشۃؓ عن النبیﷺ انہ قال لا یبقی بعدی من النبوۃ شئی الا المبشرات قالوا یا رسول اﷲ وماالمبشرات قال الرؤیۃ الصالحۃ یراھا المسلم اوتریٰ لہ (کنز العمال ج۱۵ ص۳۷۱ حدیث ۴۱۴۲۳، بروایت احمد ج۶ ص۱۲۹والخطیب)‘‘
{حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد نبوت میں سے کوئی جزباقی نہ رہے گا۔ سواء مبشرات کے، صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ مبشرات کیا چیز ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اچھی خواب جو کوئی مسلمان خود دیکھے یا اس کے لئے دوسرا دیکھے۔}