اولئک رفیقا (النسائ:۶۹)‘‘ یعنی جو شخص اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول محمدﷺ کی اطاعت کرے وہ قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ جن پر اﷲتعالیٰ نے انعام فرمایا۔ یعنی نبیین اور صدیقین اور شہداء اور صالحین کے ساتھ اور یہ لوگ اچھے رفیق ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان نبیین اور صدیقین اور شہداء ہوتے ہیں۔
جواب: اہل علم بلکہ عوام بھی اس نرالی منطق پر ہنسیں گے۔ مگر یہ لوگ ایسے استدلال پیش کرتے ہوئے شرماتے نہیں۔ اس استدلال کا حاصل تو یہ ہوا کہ جو شخص جس کے راستہ پر چلتا ہے وہ وہی بن جاتا ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے۔ ’’صراط اﷲ (الشوریٰ:۵۳)‘‘ تو اب مرزاقادیانی کے تجویز کردہ قانون کے مطابق جو شخص اﷲ کے راستے پر چلے گا وہ معاذاﷲ خدابن جائے گا۔ آیت کا شان نزول یہ ہے کہ ایک صحابیؓ نے عرض کیا کہ حضورﷺ مجھ کو بہت قلق اور رنج لاحق ہوگیا ہے۔ کیونکہ حضورﷺ کی صحبت صرف دنیا میں معدودے چند دن ہے۔ پھر فرقت ہی فرقت ہے۔ حضورﷺ کا دیدار نصیب نہ ہوگا۔ آپؐ اعلیٰ مقام میں ہوں گے۔ ہماری معمولی مسلمانوں کی وہاں کیسے گذر ہوسکتی ہے۔ اس کی تسلی کے لئے خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مطیع مسلمان جنت میں نبییوں اور صدیقوں اور شہداء کے رفیق ہوں گے فرقت نہ ہوگی۔ اس کو اثبات نبوت سے کیا تعلق ہے؟۔ بلکہ اس آیت سے ختم نبوت ثابت ہے کہ حضورﷺ ہی کی اطاعت موجب نجات ہے۔ اگر حضورﷺ کے بعد کوئی اور نبی پیدا ہوتو اس وقت اس کی نبوت پر ایمان لانا اور اس کی وحی اور اس کی تعلیم اور اس کی اطاعت موجب نجات ہوتی اور باوجود کمال اتباع حضورﷺ کے بھی اگر اس نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان نہ لایا تو نجات نہیں اور یہ قرآنی حکم منسوخ ہوجائے گا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے (حاشیہ اربعین نمبر۴ ص۷، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵) میں لکھا ہے کہ: ’’خدا نے میری وحی اور میری تعلیم میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے اس کو مدار نجات ٹھہرایا۔‘‘
وسوسہ نہم
’’ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منہم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۰ واخرین منہم لما یلحقوابہم وھو العزیز الحکیم (جمعہ:۲)‘‘ ’’یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیش گوئی ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۵۰۲)
جواب: آخرین کا عطف امییّن پر ہے۔ یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے امییّن میں ان ہی میں کا ایک رسول مبعوث کیا۔ جو ان کو ہماری آیتیں سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت کی تعلیم کرتا ہے اور بے شک وہ پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے اور ان کے سوا اور لوگوں میںبھی جواب تک ان سے لاحق نہیں ہوئے۔ یعنی یہ رسول ان لوگوں کا بھی رسول ہے جو بعد میں آنے والے ہیں۔ جو آنحضرتﷺ کے بعد فوجاً فوجاً دین اسلام میں داخل ہوئے۔ مقصود یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی نبوت ایک عامہ اور کافہ نبوت ہے۔ قیامت تک آپؐ ہی معلم اور مزّکی ہیں۔ ’’قال المفسرون ھم الاعاجم یعنون بہ غیر العرب ای طائفۃ کانت قالہ ابن عباسؓ وجامعۃ وقال مقاتل یعنی التابعین ھذہ الامۃ الذین یلحقون باوائلہم وفی الجملۃ معنی جمیع الاقوال فیہ کل من دخل فی الاسلام بعد النبیﷺ الی یوم القیامۃ فالمراد بالامیین العرب وبالاخرین سواھم من الامم (تفسیر کبیر ج۳۰ ص۴ وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الیٰ یوم الدین، تفسیر ابو السعود ج۸ ص۲۴۷قیل ھم الذین یأتون من بعدھم الیٰ یوم