جواب: اس آیت میںآدم علیہ السلام کی زبان سے تمام بنی آدم کو خطاب ہوا ہے اور حضورﷺ کو ارشاد ہوا ہے کہ اس مضمون کو بیان کرو اور اپنی امت کے معلوم کرنے کے لئے سنائو۔ خود رسول اکرمﷺ کی امت مخاطب نہیں ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ تمام قرآن کریم میں اس امت محمدیﷺ کو ’’یایہا الذین امنوا (نسائ:۱۳۶)‘‘ یاقبل ہجرت ’’یا یہاالناس (بقرہ:۲۱)‘‘ سے مخاطب فرماتا ہے۔ لفظ یا بنی ادم سے کبھی ہر گز خاص طور پر امت محمدیﷺ کو مخاطب نہیں فرمایا۔ چنانچہ سورہ اعراف میں حضرت شاہ ولی اﷲؒ صاحب نے لکھا ہے۔‘‘ اے فرزندان آدم علیہ السلام … الخ! اس کے حاشیہ میں لکھا ہے۔ ’’برزبان آدم چنانچہ درسورہ بقرہ اشارت رفت۔‘‘ چنانچہ یہی مضمون (سورہ بقرہ ۳۷،۳۸) میں ہے۔ ’’فتلقیٰ آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ انہ ھو التواب الرحیم قلنا اھبطوا منہا جمیعا فاما یا تینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلاخوف علیھم ولا ھم یحزنون‘‘ اور اسی طرح سورہ طہٰ۱۲۳ میں ہے۔ ’’قال اھبطا منہا جمیعا بعضکم لبعض عدوا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدایٰ فلا یضل ولا یشقیٰ‘‘ تفسیر (درمنثور ج۳ ص۸۲) میں ہے۔ ’’اخرج ابن جریر عن ابی یسار السلمےؓ قال ان اﷲ تبارک وتعالیٰ جعل اٰدم وذریتہ فی کفہ فقال یابنی اٰدم امایا یتینکم رسل منکم یقصمون علیکم ایتی فمن اتقیٰ… الخ!‘‘ {یعنی ابویسار سلمی سے ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آدم اور ان کی ذریۃ کو اپنے دست قدرت میں لیا اور اس آیۃ کا مضمون اور فرمان سنایا۔}
نبوت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی پھر نوح علیہ السلام کے بعد نوح علیہ السلام کی اولاد میں رکھی گئی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد پر رکھی گئی اور ان کی اولاد میں نبوت کو حصر کردیا۔ مثل مظروف کے ظرف میں وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتاب! پھر اس کے دو شعبے ہوئے۔ بنی اسرائیل جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بہت سے رسول آئے اور بنی اسماعیل اس میں صرف ہمارے رسول خاتم الانبیاء علیٰ دعوۃ ابراہیم پیدا ہوئے اور خاتم النبیین پر سلسلہ نبوت ختم کر دیا گیا۔ اب کوئی مغل بچہ نبی نہیں ہوسکتا۔
وسوسہ ہفتم
اور ’’اﷲیصطفی من الملئکۃ رسلا ومن الناس (الحج:۷۵)‘‘ {یعنی اﷲتعالیٰ اپنی نبوت اور رسالت کے لئے فرشتوں اور انسانوں سے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔} یعنی کسی کا اس میں استحقاق نہیں ہے۔ یہ نعمت محض وہبی ہے۔ کسی کے کسب پر موقوف نہیں ہے۔ یہ آیت صرف اسی مطلب کے لئے ہے۔ چونکہ کفار مکہ نے حضورﷺ سے یہ کہاتھا کہ ہم آپؐ سے رسالت کے لئے زیادہ مستحق ہیں۔ ہم آپؐ سے عمر میں بڑے ہیں اور مال ودولت میں زیادہ ہیں۔ طاقت میں زیادہ ہیں تو کیا وجہ ہم کو چھوڑ کر اﷲتعالیٰ آپؐ کو رسول بنائے تو حضورﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ مطلب ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ہمیشہ قیامت تک رسول بناکریں گے۔ یہ مضارع مطلق ہے۔ نبوت کو محض موہبتہ ظاہر کرنے کے لئے استقبال کے معنے ہر گز نہیں۔ نہ مضارع دوامی ہے۔ جبکہ نبوت کا انقطاع قطعاً ثابت ہوچکا۔ دیگر آیات قرآنیہ سے۔
وسوسہ ہشتم
مسلمان پنجگانہ نمازوں میں اﷲتعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں۔ ’’اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم (فاتحہ:۶،۷)‘‘ یعنی اے اﷲ ! ہمیں سیدھے راستے پر چلا جو ان لوگوں کا راستہ ہے۔ جن پر تونے انعام فرمایا ہے اور جن پر انعام فرمایا ہے۔ ان کا بیان اس دوسری آیت میں یہ ہے۔ ’’ومن یطع اﷲ والرسول فاؤلئک مع الذین انعم اﷲ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین وحسن