سماویہ میں مذکور ہے تو پھر اپنی نبوت کیوں منوائی جاتی ہے۔ آپ کے نبی نہ ماننے والوںکو کافر کیوں بنایا جاتا ہے مکفر ومکذب متردد کے پیچھے نماز کیوں ناجائز وحرام بتلائی جاتی ہے اور اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں نبوت سے انکار کرنے والے کو کیوں ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔ نبوت کے اس قدر زور و شور سے کیوں دعوے کئے جاتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام پر کیوں اپنی فضلیت ظاہر کی جاتی ہے۔ بلکہ دعویٰ منصب نبوت سے آپ پر کفر لازم آتا ہے اور نیز پھر کیوں آیت خاتم النبیین کے معنی اسقدر موڑ توڑ کر بیان کئے جاتے ہیں؟۔ حالانکہ آپ نے (حقیقت الوحی ص۱۴۲، خزائن ج۲۲ ص۱۴۶) میں تصریح کی ہے کہ: ’’ہم اس بات کے مجاز نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسے معنی ایجاد کریں کہ جو قرآن کریم کے بیان کردہ معنوں سے مغائر اور مخالف ہوں۔‘‘(ملخصاً) اور آپ نے خود (ازالہ اوہام ص۴۶۷، خزائن ج۳ ص۳۵۰) میں تصریح کی ہے۔ ’’جو شخص الحاد کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لئے سیدھی راہ یہی ہے کہ قرآن کریم کے معنی اس کے مروجہ اور مصطلحہ الفاظ کے لحاظ سے کرے ورنہ تفسیر بالرائے ہوگی۔‘‘ اور حضورﷺ نے فرمایا ہے ’’من فسرالقرآن برائہ فمقعدہ فی النار اوکماقال (ترمذی بمعناہ ج۲ ص۱۲۳ باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ)‘‘ یعنی جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے بیان کی اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اب ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ معنے سلف سے خلف تک کسی نے اب تک بیان بھی کئے ہیں یا نہیں یقینا نہیں کئے اور نہ اب تک اس قسم کی نبوت کا کوئی اس امت سے مدعی ہوا تو یقینا آپ کی یہ تفسیر تفسیر بالرائے ہوئی اور آپ کا یہ دعویٰ نبوت کاذب محض اصطلاحی فرق اور لفظی نزاع کہہ دینے سے بری نہیں ہوسکتے اور بموجب حکم الٰہی نبوت کا دعویٰ کرنا یہی تو مستقل نبوت کا دعویٰ ہے۔ نزاع لفظی کیسے ہوگا اور (الوصیت ص۱۱، خزائن ج۲۰ ص۳۱۱) میں ذکر کرتے ہیں۔ ’’اور وہی (کثرت مکالمہ ومخاطبہ) دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔ جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے۔‘‘ غرض مرزاقادیانی نے اپنی نبوت سیدھی کرنے کے لئے موقع اور محل دیکھ کر طرح طرح کے حیلے تراشے۔ مگر نبوت سے انکار نہیں کر سکتے۔ نبوت کو ہر طرح سے جس طرح ہوسکے ثابت کریں گے اور قرآن کریم میں یہ تحریفات رکیکہ بھی صرف اس وجہ سے کی جاتی ہیں کہ بھولے بھالے نادان مسلمانوں پر ظاہر ہو کہ مرزاقادیانی قرآن کو کلام اﷲ اور محمدﷺ کو رسول اﷲ برحق جانتے ہیں۔ ورنہ ان کی یہ غرض کسی طرح بھی پوری نہیں ہوسکتی تھی۔
الغرض جیسے کہ بموجب تخلقوا باخلاق اﷲ! اخلاق اﷲ کو حاصل کر کے خدا نہیں بن جاتا اور ظل اﷲ فی الارض ہوکر اﷲ نہیں ہوجاتا۔ اسی طرح کمالات نبوت وراثتاً وظلاً حاصل کر کے نبی نہیں بن جاتا۔ کمالات نبوت کا ظلاً حاصل کرنا ہو سکتا ہے۔ مگر نبوت ظلاً حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک بڑا مغالطہ ہے جو دیا جاتا ہے۔ کیونکہ نبوت کا ظل ہی نہیں۔ حضرت مجدد صاحبؒ (مکتوبات ج۱ ص۶۳۶ مکتوب نمبر۳۰۱) میں فرماتے ہیں۔ ’’نبوت عبارت از قرب الٰہی است کہ شائبہ ظلیت ندارد ۔‘‘ ورنہ اس امت میں بڑے بڑے محدث، مجدد، اولیائؒ اﷲ، قطب الاقطاب، فنافی الرسل، بروز وظل کامل ہوچکے ہیں اور ہوں گے۔ مگر کسی نے دعویٰ منصب نبوت نہیں کیا اپنے منکر کو کافر نہیں بتلایا آیۃ خاتم النبیین کے معنی کس نے اسقدر موڑ توڑ کر نہیں بیان کئے۔
وسوسہ ششم
بعض مرزائی یہ آیت پیش کیا کرتے ہیں۔ ’’یابنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقیٰ واصلح فلا خوف علیہم ولا ھم یحزنون (اعراف:۳۰)‘‘ اور اس میں مخاطب امت محمدیﷺ کو بتاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس امت میں بھی رسول آئیں گے۔ چنانچہ آیت ’’اﷲ یصطفیٰ من الملئکتہ رسلا ومن الناس (الحج:۷۵)‘‘ میں مضارع یعنی مستقبل ہے۔