مسلم مسئلہ ہے کہ بجز خداتعالیٰ کے تمام انبیاء کے افعال اور صفات نظیر رکھتے ہیں تا کسی نبی کی کوئی خصوصیت منجر بشرک نہ ہو جائے۔‘‘ تیسرے جب یہ منصب نبوت حضورﷺ کی اتباع کامل پیروی اور فنافی الرسول ہونے کا نتیجہ ہے تو یہ منصب نبوت کسبی ہوگا نہ موہبی۔ حالانکہ ادھر مرزاقادیانی کو اپنے اس منصب نبوت کے موہبی ہونے کا دعویٰ ہے۔ چنانچہ (ایک غلطی کا ازالہ ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰، حقیقت النبوت ص۲۶۴) میں لکھتے ہیں۔ ’’نبوت صرف موہبت ہے۔‘‘ اور (حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۷۰) میں ہے۔ ’’خداتعالیٰ نے مجھے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلک شکم مادر ہی میں مجھے عطاء کی گئی ہے۔‘‘ اور (ص۶۲، خزائن ج۲۲ ص۶۴) میں ہے۔ ’’سو میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کثیر حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبییوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔‘‘ پس جب محض خداتعالیٰ کے فضل سے شکم مادر میں ہی یہ نعمت نبوت ملی ہے تو بے شک مرزاقادیانی نے اپنے لئے ایسی نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ جو براہ راست منصب نبوت خدا کی موہبت ہے۔
(ضمیمہ براہین حصہ پنجم ۱۳۸، ۱۳۹، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶) میں لکھتے ہیں۔ ’’وہ دین دین نہیں اور نہ وہ نبی نبی ہے جس کی متابعت سے انسان خداتعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہوسکتا کہ مکالمات الٰہیہ سے مشرف ہوسکے۔ وہ دین لعنتی اور قابل نفرت ہے… سوایک امتی کو اس طرح کا نبی بنانا سچے دین کی ایک لازمی نشانی ہے۔‘‘ پس مرزاقادیانی کے نزدیک یاتو سارے ادیان سماویہ معاذاﷲ لعنتی ٹھہرے یا جمیع انبیاء کو صاحب خاتم مانا جائے۔ (اشتہار ۵؍مارچ۱۹۰۸ء بدر ج۷ نمبر۹ ص۲، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷) میں لکھتے ہیں۔ ’’جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶، ۴۰۷) میں ہے۔ ’’اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوںیعنی نبوت پانے کے لئے۔‘‘ اور اسی صفحہ میں ہے۔ ’’تاجیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا وہ پیش گوئی پوری ہوجائے۔‘‘ تو کیا ایک ہی فرد سے سلسلہ قائم ہوگیا۔ بدیں اعتبار تو اس دین سے پہلے ادیان اچھے اور یہی دین مردہ ہے پہلے ادیان کے متبع ہزاروں نبی ہوئے۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳) میں ہے۔ ’’صرف میری مراد نبوت سے کثرت مکالمہ ومخاطبت الٰہیہ ہے۔ جو آنحضرتﷺ کے اتباع سے حاصل ہے۔ سو مکالمہ ومخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس صرف یہ لفظی نزاع ہوئی۔ یعنی جس امر کا نام آپ لوگ مکالمہ ومخاطبہ رکھتے ہیں میں ا س کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔ ’’ولکل ان یصطلح‘‘ اور (بدرہ ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷) میں ہے۔ ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔ دراصل یہ نزاع لفظی ہے۔ خدائے تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ ومخاطبہ کرے جو بلحاظ کمیت اور کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیش گوئیاں بہت کثرت سے ہوں اسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ پس ہم نبی ہیں۔‘‘ اور (الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۱۶، خزائن ج۲۲ ص۶۳۷) میں لکھتے ہیں۔ ’’مانعنی من النبوۃ ما یعنی فی الصحف الاولیٰ‘‘ ’’یعنی نبوت سے مراد وہ نبوت نہیں لیتا جو پہلی کتابوں قرآن وحدیث وغیرہ میں مراد لیاجاتا ہے۔‘‘ (کمافی تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
ان اقوال میں مرزاقادیانی نے طوعاً وکرہاً تسلیم کرلیا کہ میری نبوت کا ثبوت محض میری اصطلاح ہے۔ قرآن وحدیث وکتب سابقہ میںاس کا کچھ پتہ نہیں۔ قرآن وحدیث سے جو ثبوت پیش کردیا جاتا ہے وہ جاہلوں کو دام تزویر میں پھانسنے کے لئے محض ڈھکوسلا ہے۔ جب آپ کی یہ نبوت محض آپ کی ایک اصطلاح اور نزاع لفظی ہے اور وہ نبوت مراد نہیں جو قرآن وحدیث اور دیگر کتب