ص۶۴۷) میں لکھ چکے ہیں۔ ’’حضرت خاتم الانبیاء کے ادنیٰ خادموں اور کمترین چاکروں سے ہزارہا پیش گوئیاں ظہور میں آتی ہیں اور خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘ پھر کیا وجہ ہوئی کہ حضورﷺ کے بڑے بڑے خادم جن سے نہ معلوم کس قدر پیش گوئیاں اور خوارق عجیبہ ظاہر ہوئے ہوں گے۔ نبی نہ بنائے گئے۔
(حقیقت الوحی ص۹۷ حاشیہ ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰) میں لکھتے ہیں۔ ’’بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر ان کی نبوت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا۔ بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا اس میںایک ذرہ کچھ دخل نہ تھا۔ اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔ بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست ان کو منصب نبوت ملا۔‘‘ اور (شہادت القرآن ص۴۶، خزائن ج۶ ص۳۴۲) میں لکھتے ہیں۔ ’’بہت ۱؎ ایسے نبی گذرے ہیں۔ جو کوئی نئی شریعت نہیں لائے بلکہ توریت کے مطابق ہی وہ فیصلہ کیاکرتے تھے اور ان کا کام توریت کو منسوخ کرنا نہ تھا۔ بلکہ اس کی نگرانی اور حفاظت تھا۔‘‘ (ملخصاً ازحقیقت النبوت ص۵۹، ۸۰)
جب صحابہ کرامؓ خصوصاً حضرت عمرؓ فنافی الرسول اور عکسی تصویریں اور ظلی محمدﷺ تھے اور ادنیٰ خادموں سے ہزارہا پیشین گوئیاں اور خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے تھے تو پھر ان کو اﷲتعالیٰ نے رسالت کے ساتھ بطور نتیجہ کیوں مبعوث نہیں کیا؟۔ اگر صرف یہ جواب ہے کہ اﷲ جس کو چاہے اپنی رسالت کے لئے انتخاب کرے تو یہ تو براہ راست نبوت حاصل ہونے کے معنی ہیں کہ جس کو چاہے اپنا نبی اور رسول بنائے۔ اعطائے رسالت کے لئے ظل ہونا علت موجبہ نہیں رہا اور نہ رسالت کامل پیروی کا نتیجہ ہے اور نہ اس کو کچھ دخل اورنیز یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ انبیاء بنی اسرائیل کی نبوت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا ورنہ کیا وہ قبل اعطاء نبوت مشرک تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر اور ان کی شریعت پر ایمان نہ کررکھتے تھے۔ اس پر عمل نہ کرتے تھے؟۔ خصوصاً ہارون علیہ السلام کی نبوت جو موسیٰ علیہ السلام کی پیروی واطاعت اور ان کی دعا سے خداوند عالم نے عطاء
۱؎ علامہ ابن تیمیہ نے (شرح اصفہانیہ ص۱۰۷) میں لکھا ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل توریت
میں تعمیم وتخصیص وترمیم یعنی نسخ جزئی کیاکرتے تھے۔
فرمائی تھی۔ ’’واجعل لی وزیرا من اھلی ہارون اخی (طہ:۲۹،۳۰)‘‘ ’’واشرکہ فی امری (طہ:۳۲)‘‘ جبکہ بہت سے انبیاء بنی اسرائیل غیر تشریعی پہلے نبی تشریعی کی شریعت پر عمل کرتے تھے تو ان کو نبی امتی کیوں نہ کہا جائے۔ امتی کے تو معنی یہی ہیں کہ کسی نبی کی شریعت پر عمل کرتا ہو۔ خصوصاً ہارون علیہ السلام جو موسیٰ علیہ السلام کے واسطہ اور دعا سے نبی بنائے گئے۔ اگر اس کے خلاف کچھ اور معنی ہیں تو قرآن وحدیث سے پتہ ملنا چاہئے۔ مگر افسوس حدیث ’’یاعلیؓ! انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی (مسلم ج۲ ص۲۷۸، باب من فضائل علی ابن ابی طالبؓ)‘‘ سے یہ توقع بھی جاتی رہی۔ دوسرے معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی نے ایسی نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے کسی نبی میں ایسی نبوت نہیں پائی جاتی۔ اب سنئے مرزاقادیانی ہی کا یہ ایک قاعدہ مسلمہ ہے۔ (تحفہ گولڑویہ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۹۵) میں ہے۔ ’’سچ کی یہ نشانی ہے کہ اس کی کوئی نظیر بھی ہوتی ہے اور جھوٹ کی یہ نشانی ہے کہ اس کی نظیر کوئی نہیں ہوتی۔‘‘ اور اسی صفحہ میںہے۔ ’’یہ