انبیاء بنتے ہیں۔ آپؐ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت مل سکتی ہے۔
جواب: اب ہم مرزاقادیانی کا اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جس میں وہ خاتم النبیین کے معنی انبیاء اور نبوت پر مہرکرنے والا تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد کے ہونے کے ہے نہ میرے نفس کی رو سے اور یہ تمام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا۔ لہٰذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا… لیکن اگر کوئی شخص اس خاتم النبیین میں ایسا گم ہوکہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کانام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا انعکاس ہوگیا ہوتو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلاے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گوظلی طور پر۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھاگیا ہے۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبیین ہی رہا۔ کیونکہ محمد ثانی اسی محمدﷺ کی تصویر اوراسی کا نام ہے۔‘‘
(اشتہار ۱ ؎ ،ایک غلطی کا ازالہ ص۴،۵، خزائن ج۱۸ ص۲۰۸،۲۰۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۳۳، ۴۳۴)
’’جب کہ بروزی طور پر میں آنحضرت ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کون سا الگ انسان ہوں جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا… کیونکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں۔ پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیوں کہ محمدﷺ کی نبوت محمدﷺ تک ہی محدود رہی… اس کے یہ معنی ہیں کہ محمدﷺ کی نبوت آخر محمدﷺہی کو ملی۔ گوبروزی طور پر… تمام انبیاء علیہم السلام کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں دوئی نہیں ہوتی… میں بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرتﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے… میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفیﷺ ہے… اب تمام دنیا بے دست وپا ہے کیوں کہ نبوت پرمہر ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۸تا ۱۲، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲تا۲۱۶، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۳۷ تا ۴۴۲)
نوٹ! اگر خاتم النبیین کے یہ معنی تھے کہ آپؐ کی مہر سے انبیاء بنتے تھے تو کسی نبی کے آنے سے مہر ٹوٹنے کا خطرہ کیوں ہے؟۔ بلکہ پھر تو جتنے زیادہ انبیاء پیدا ہوں اس مہر کا کمال ظاہر ہونا چاہئے نہ یہ کہ مہر ٹوٹنے کا خطرہ کی وجہ سے آنے والے نبی کو وہ بھی صرف ایک مرزاقادیانی ہی کو ظلی محمد ہونا ہی ضروری ہو۔ مگر افسوس احادیث کے دفتر میں سے ایک ضعیف سے ضعیف حدیث بھی نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ امت میں کوئی ظلی بروزی نبی ہوگا اور اس پر ایمان لانے کی تاکید فرمائی ہو۔ بلکہ اس امت میں مدعیان نبوت کو دجالین میں شمار فرمایا ہے۔ مرزاقادیانی (فتح الاسلام ص۳۶، خزائن ج۳ ص۲۱) میں لکھتے ہیں۔ ’’آنحضرتﷺ کی جماعت عضو واحد کی طرح ہوگئے تھے… ان کے روزانہ برتائو اور زندگی اور ظاہر اور باطن میں انوار نبوت ایسے رچ گئے تھے کہ گویا