خاتم النبیین کے معنی تو آخر النبیین ہی کے ہیں۔ لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے سے پہلے نبیوں کے ختم کرنے والے۔
جواب: اگر یہ صورت اختیار کی جائے کہ اپنے سے پہلے نبیوں کے خاتم، تو ہر نبی آدم علیہ السلام کے علاوہ اپنے سے پہلے انبیاء کا خاتم اور آخر ہے۔ تو خاتم النبیین حضورﷺ کا وصف مخصوص نہ رہا حالانکہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے تمام انبیاء پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ ان میں سے دو یہ ہیں۔ ’’وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون (مسلم ج۱ ص۱۹۹ کتاب المساجد)‘‘ یعنی میں تمام خلق کی طرف رسول کر کے بھیجا گیا ہوں اور نبیوں کا سلسلہ مجھ پر ختم کر دیا گیا۔ غرض یہ تحریف بھی نصوص صریحہ قرآن اور احادیث اور تفاسیر سلف کے خلاف ہے۔
وسوسہ سوم
خاتم النبیین کے معنی تو آخر النبیین ہی کے ہیں۔ لیکن النبیین میں الف لام عہد کا ہے نہ استغراق کا، معنی یہ ہوں گے کہ آپؐ انبیاء صاحب شریعت جدیدہ کے آخر ہیں نہ کل نبیوں کے آخر۔
جواب: اگر الف لام عہد کا ہے تو معہود کلام سابق میں مذکور ہونا چاہئے اور کلام سابق میں خاص انبیاء تشریعی کا کہیں ذکر نہیں بلکہ اگر ذکر آیا ہے تو مطلق انبیاء کا ذکر ہے۔ ہاں نئے قرآن میں جس کی ایک آیت ’’انا انزلناہ قریباً من القادیان‘‘ اس میں ہوتو ہو۔ ورنہ نبی عربی ﷺ نے جو قرآن امت کو دیا ہے اس میں اس معہود کا کہیں پتہ نہیں۔ (تذکرہ ص۷۵)
وسوسہ چہارم
خاتم النبیین میں الف لام استغراق عرفی کے لئے ہے۔ استغراق حقیقی کے لئے نہیں معنی یہ ہیں کہ آپ جمیع انبیاء تشریعی کو ختم کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ آیت ویقتلون النبیین میں استغراق عرفی ہے نہ حقیقی۔
جواب: باتفاق علماء عربیت واصول استغراق عرفی اس وقت مراد ہوتا ہے کہ جب کہ استغراق حقیقی نہ بن سکتا ہو۔ یا عرفاً اس کے تمام افراد مراد نہ ہوسکتے ہوں اور یہاں استغراق حقیقی بلا تکلف صحیح ہے کہ آپؐ تمام انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں۔ لہٰذا استغراق حقیقی متعیّن ہے اور آیت یقتلون النبیین میں کھلی ہوئی بات ہے کہ استغراق حقیقی کے لئے کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ بالکل کذب محض اور غلط خلاف واقع ہوگا کہ بنی اسرائیل نے تمام انبیاء کو جوان سے پہلے گذرگئے تھے اور جو ان کے زمانہ میں موجود تھے اور جو ان کے بعد آئیں گے۔ یہاں تک کہ حضورﷺ کو بھی انہوں نے قتل کیا بلکہ یہ بھی ثابت نہیں کہ بنی اسرائیل نے اپنے زمانہ کے تمام انبیاء موجودین کو بلا استثناء قتل ہی کر ڈالا ہو۔ قرآن عزیز ناطق ہے۔ ’’ففریقاً کذبتم وفریقاً تقتلون (بقرہ:۸۷)‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے تمام انبیاء موجودین کو بھی قتل نہیں کیا۔ غرض اس آیت میں استغراق حقیقی کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا اور آیت خاتم النبیین میں بلاتکلف صحیح ہے۔
وسوسہ پنجم
ابھی آپ نے (حقیقت الوحی ص۲۸و۹۷، خزائن ج۲۲ ص۳۰و۱۰۰) کے حوالہ سے مرزاقادیانی کے آیت خاتم النبیین کے متعلق یہ معنی معلوم کر چکے کہ آپؐ کی مہر اور تصدیق سے