پرزور مارکر عوام کے قلوب میں وسوسے ڈالنے چاہے اور مرزائیوں نے اس پر اور حاشیے چڑھائے۔
وسوسہ اوّل
مرزاقادیانی نے (حقیقت الوحی ص۲۸، خزائن ج۲۲ ص۳۰ حاشیہ ، حقیقت الوحی ص۹۷، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰) وغیرہ میں خاتم النبیین کے یہ معنی قرار دئے ہیں کہ آپؐ کی مہر وتصدیق سے انبیاء بنیں گے۔
جواب: آزادی کا زمانہ ہے ہربددین کے ہاتھ میں قلم ہے۔ ایک شخص اٹھتا ہے۔ قرآن کریم کی آیت کے معنی قواعد لغت کے خلاف خود تصریحات قرآن کے خلاف ڈیڑھ سو احادیث کے خلاف صحابہؓ وتابعین وآئمہ تفسیر کے خلاف علی الاعلان بیان کرتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ قرآن کی یہ مہمل تحریف کون سی لغت کے مطابق ہے۔ کس حدیث سے ثابت ہے۔ کس صحابیؓ کا قول ہے؟۔ اگر مرزاقادیانی اور ان کی امت کو کچھ غیرت ہے تو لغت عرب اور قواعد عربیت سے ثابت کریں کہ خاتم النبیین ﷺ کے یہ معنی ہیں کہ آپؐ کی مہر سے انبیاء بنتے ہیں۔ کلام عرب میں صرف ایک ہی نظیر پیش کردیں یا کسی ایک لغوی اہل عربیت کے قول میں یہ معنی دکھلادیں اور یقینا اس کی ایک نظیر کلام عرب یا اقوال لغویین میں نہ دکھلا سکیں گے۔ لفظ خاتم النبیین کے معنی کی تحقیق گذر چکی وہاں ملاحظہ ہو۔ پس خاتم النبیین کے وہ نئے معنی جو مرزا قادیانی نے خود وضع کئے ہیں۔ محاورات عرب کے بالکل خلاف ہیں۔ ورنہ لازم آئے گا کہ خاتم القوم کے بھی یہ معنی ہوں کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے اور خاتم الاولاد کے یہ معنی ہوں گے کہ اس کی مہر سے اولاد بنتی ہے اور ختم اﷲ علی قلوبھم کے معنی بالکل مہمل ہوں گے۔ غرض جو معنی مرزاقادیانی نے اپنی نبوت کے سیدھا کرنے کی دھن میں بیان کئے عرب میں ہرگز ہرگز مستعمل نہیں۔ خود مرزاقادیانی کا وسوسہ ہے اور بس تفسیر (ابن جریر ج۲۲ ص۱۶) زیر آیت ماکان محمد… الخ! میں حضرت قتادہؓ سے خاتم النبیین کی تفسیر یہ منقول ہے۔ ’’عن قتادۃؓ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۰ اے آخرھم‘‘ اور ۱۵۰ احادیث میں اس لفظ کی یہی تفسیر فرمائی گئی ہے۔ بعض مرزائی لکھتے ہیں کہ:
’’خاتم النبیین بمعنی مصدّق النبیین یعنی تمام انبیاء کی نبوتیں حضورﷺ کی تصدیق پر موقوف ہیں۔ (بخاری شریف ج۲ ص۸۷۳ باب اتخاذ الخاتم لیختم بہ) میں ہے کہ جب حضورﷺ نے عجمیوں کی طرف تبلیغی خطوط روانہ فرمانے کا ارادہ فرمایا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ جو کتاب مختوم نہ ہوا عاجم اس کو نہیں پڑھتے تو آپؐ نے ایک انگوٹھی پر مہر کندہ کروائی۔‘‘
جواب: خاتم القوم کے معنی مصدّق القوم کسی لغت عربی میں نہیں ہیں اور نہ کسی صحابیؓ کی تفسیر کمامر فیما سبق اور حدیث مذکورہ سے استشہاد بھی عجیب اور مضحکہ ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں یہ عجمیوں کا دستور بتلایا گیا ہے نہ اہل عرب کا۔ لہٰذا عربیت میں کیسے حجت ہوسکتا ہے؟۔ اور نیز ہر نبی اپنے سے پہلے کا مصدّق ہوتا ہے اور آنے والے کے لئے مبشر۔ جیسے کہ قرآن کریم کی آیات سے ظاہر وباہر ہے کہ چونکہ حضورﷺ بلااستثناء جمیع انبیاء کے مصدق ہیں اور کسی آنے والے نبی کے لئے مبشر نہیں ہیں۔ لہٰذا آپؐ کا آخر الانبیاء ہونا اس معنی سے بھی اظہر من الشمس ہے۔ لغت کے خلاف اعاجم کا دستور لے کر معنی بھی کئے تو وہ بھی خلاف مدعا۔
وسوسہ دوم