۲… ’’اور یقین کامل سے جانتاہوں اور اس بات پر محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبیﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد اس امت کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نیا ہو یا پرانا ہو۔‘‘ (نشان آسمانی ص۳۰، خزائن ج۴ ص۳۹۰)
۳… ’’ماکان اﷲ ان یرسل نبیاً بعد نبینا خاتم النبیین وماکان ان یحدث سلسلۃ النبوۃ بعد انقطاعہا‘‘ ہمارے نبی خاتم النبیین کے بعد اﷲتعالیٰ ہرگز کوئی نبی نہیں بھیجے گا اور بعد انقطاع نبوت کے پھر سلسلہ نبوت کو جاری نہ کرے گا۔
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۷۷، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۴… ’’ماکان محمد ابا احدٍ من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۰ الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمی نبیناﷺ خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسر نبینا فی قولہ لا نبی بعدی ببیان واضح للطالبین ولو جوز ناظہور نبی بعد نبیناﷺ لجوزنا انفتاح باب النبوۃ بعد تغلیقہا وھذا خلف کما لایخفیٰ علی المسلمین وکیف یحبیٔ نبی بعد رسولناﷺ وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اﷲ بہ النبیین‘‘
(حمامۃ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰)
ہم نے محمدﷺ کو کسی مرد کا باپ نہیں بنایا۔ ہاں وہ اﷲ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اس محسن رب نے ہمارے نبی کا نام خاتم الانبیاء رکھا ہے اور کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا اور آنحضرتﷺ نے طالبوں کے لئے بیان واضح سے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور اگر ہم آنحضرتﷺ کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز رکھیں تو لازم آتا ہے کہ وحی نبوت کے دروازے کا انفتاح بھی بند ہونے کے بعد جائز خیال کریں اور یہ باطل ہے ۔ جیسا کہ مسلمانوں پر پوشیدہ نہیں اور آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی کیوں کر آئے۔ حالانکہ آپ کی وفات کے بعد وحی نبوت منقطع ہوگئی ہے اور آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ہے۔‘‘
۵… ’’آپ کے بعد اگر کوئی دوسرا نبی آجائے تو آپ خاتم الانبیاء نہیں ٹھہر سکتے اور نہ سلسلہ وحی نبوت کا منقطع متصور ہوسکتا ہے اور اس میں آنحضرتﷺ کی شان کا استخفاف اور نص صریح قرآن کی تکذیب لازم آتی ہے۔ قرآن کریم میں مسیح بن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بکمال بتصریح ذکر ہے اور حدیث لانبی بعدی میں بھی نفی عام ہے۔ پس یہ کس قدر جرأت اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کر کے نصوص صریحہ قرآن کریم کو عمداً چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے اوربعد اس کے جو وحی نبوت منقطع ہوچکی تھی۔ پھر سلسلہ وحی نبوت کا جاری کردیا جائے۔‘‘
(ایام الصلح ص۴۶ا، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲، ۳۹۳)
نوٹ! مرزاقادیانی کے ۱۹۰۰ء سے پہلے کے اقوال آئندہ صفحات میں ملاحظہ ہوں۔ اگرچہ قرآن کریم کی آیت اور احادیث متواترہ نبیﷺ اور کتب لغت اور عام محاورہ عرب اور آئمہ تفسیر کی تفسیروں اور خود مرزاقادیانی کی تحریروں سے مسئلہ ختم نبوت ایسا روشن اور واضح ہے کہ کسی سلیم الطبع انسان کو وہم اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کے بعد اپنی نبوت سیدھی کرنے کے لئے آیات قرآنی واحادیث نبوی میں قواعد لغت کے خلاف تحریف