الیک فقال اسا لکم ان تشہدوا ان لہ الہ الا اﷲ وانی خاتم انبیائہ ورسلہ وارسلہ معکم‘‘ {حضرت زید بن حارثہؓ اپنے اسلام لانے کا ایک طویل اور دلچسپ قصہ بیان فرما کر آخر میں فرماتے ہیں کہ جب میںحضورﷺ کی خدمت میں آکر مسلمان ہوگیا تو میرا قبیلہ مجھے تلاش کرتا ہوا حضورﷺ کی خدمت میں پہنچا۔ مجھے کہا اے زید ہمارے ساتھ چلو۔ میں نے جواب دیا کہ میں رسول اﷲﷺ کے بدلہ میں کسی چیز کا ارادہ نہیں رکھتا ہوں۔ پھر انہوں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ اے محمدﷺ! ہم آپؐ کو اس لڑکے کے بدلہ میں بہت سی دیتیں یعنی اموال دینے کو تیار ہیں۔ جو چاہیں فرمادیجئے ہم اداکریں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں تم سے صرف ایک چیز مانگتا ہوں وہ یہ ہے شہادت دو اس کی کہ اﷲ کے سوا کوئی پوجا عبادت کے لائق نہیں اور میں سب نبیوں اور رسولوں کا ختم کرنے والا ہوں۔ اس کے بعد میں اس لڑکے کو تمہارے ساتھ کردوں گا۔}
نوٹ! دیکھئے آنحضرتﷺ نے عقیدہ ختم نبوت کو کلمہ شہادت میں داخل فرما کر ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔
۲… ’’عن تمیم الداریؓ فی حدیث طویل فی سوال القبر فیقول المیت الاسلام دینی ومحمد نبییٖ وھو خاتم النبیین فیقولان لہ صدقت (رواہ ابن ابی الدنیا وابویعلی تفسیر درمنثور ج۶ ص۱۶۵)‘‘ {حضرت تمیم داریؓ ایک طویل حدیث کے ذیل میں سوال قبرکے بارے میں روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ منکر نکیر کے جواب میں مسلمان کہے گا کہ میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمدﷺ ہیں اور وہ خاتم النبیین ہیں۔ منکر نکیر یہ سن کر یہ کہیں گے کہ تو نے سچ کہا۔}
نوٹ! اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عقیدہ ختم نبوت ایمان کا اس قدر اہم جزو ہے کہ قبر کے مختصر سے جواب میں بھی اس کی شہادت دی جاتی ہے۔ خود مرزا محمودقادیانی نے (فہرست حقیقت النبوۃ ص۲۵۲) میں لکھا ہے کہ ’’ہم آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے کو جزو ایمان قرار دیتے ہیں۔‘‘
مرزاقادیانی کا قبل دعویٰ نبوت کے خود بروئے قرآن وحدیث یہی عقیدہ تھا کہ حضورﷺ آخرالانبیاء ہیں۔ آپؐ کے بعد اس امت کے لئے کوئی نبی نہیں آسکتا۔
۱… ’’ماکان محمدً ابا احدٍ من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیینیعنی محمدﷺ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں۔ مگر وہ رسول اﷲ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۱۴، خزائن ج۳ ص۴۳۱)
’’قرآن کریم کے بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔ خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۶۱، خزائن ج۳ ص۵۱۱)
’’میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت ﷺآدم صفی اﷲ علیہ السلام سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲ محمد مصطفیﷺ پر ختم ہوگئی۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۱)