گنجائش نہیں اور اب اس میں کسی دعویٰ کرنے والے کی جگہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا یہ دعویٰ ہی اس کے کذب کی بیّن دلیل ہے۔
اسی لئے (صحیح مسلم ج۱ ص۱۹۹ کتاب المساجد) میں ایک دوسری روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو تمام انبیاء پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے منجملہ ان چھ کے یہ ہیں۔ وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبییون! یعنی مجھ سے پہلے نبی ایک ایک قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے۔ لیکن مجھ کو تمام ہی خلق کے لئے رسول بناکر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ مگر افسوس آج کی کوشش ہے کہ اس فضیلت کو حضورﷺ سے چھین کر کسی کاذب کے حوالہ کردیں۔
۳… (ابوداؤد ج۲ ص۱۲۷ باب ذکر الفتن ودلائلہا، ترمذی ج۲ ص۴۵ باب ماجاء لاتقوم الساعۃ حتی یخرج کذابوان) میں ہے۔ ’’عن ثوبانؓ قال قال رسول اﷲﷺ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لانبی بعدی (وبمعناہ فی البخاری ج۱ ص۵۰۹ باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ج۲ ص۱۰۵۴ باب، وفی المسلم ج۲ ص۳۹۷ فصل فی قولہﷺ ان بین یدی الساعۃ کذابین قریباً من ثلاثین، وابی داؤد ج۲ ص۱۳۶ باب فی خبر ابن صیاد، عن ابی ہریرۃؓ)‘‘ {حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیداہوں گے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں ہوسکتا اور اس حدیث کے معنی میں بخاری نے بھی مسلم اور ابودائود نے ابوہریرہؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ حضورﷺ کے بعد قریب تیس کے جھوٹے دجال مدعی نبوت پیدا ہوں گے۔}
نوٹ! اس حدیث میں آپؐ کے بعد مدعی نبوت کو دجال وکذاب فرمایا ہے۔ کیا ایسی صاف صاف احادیث وارشادات نبویہ کے بعد بھی مسئلہ ختم نبوت کا کوئی پہلو خفا میں رہتا ہے؟۔ علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی (فتح الباری شرح صحیح بخاری ج۶ ص۴۵۵ باب علامات النبوۃ فی الاسلام) میں لکھتے ہیں۔ ’’ولیس المراد بالحدیث من ادعی النبوۃ مطلقاً فانھم لایحصون کثرۃ لکون غالبھم ینشألھم ذالک عن جنون وسوداء انما المراد من قامت لہ الشوکۃ (وکذافی عمدۃ القاری ج۷ ص۵۵۵ مصری)‘‘ یعنی اس حدیث میں مطلقاً مدعی نبوت مراد نہیں اس لئے کہ ایسے بے شمار ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ بے بنیاد دعویٰ عموماً جنون ۱؎ اور سودائیت سے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ اس حدیث میں جن تیس دجالوں کا ذکر ہے وہ وہی ہیں۔ جن کی شوکت قائم ہوجائے۔ متبع زیادہ ہوں ان کا مذہب چلے اور فی امتی فرماکر یہ بھی بتلادیا کہ وہ مدعی نبوت مراد ہیں۔ جو امتی بن کر اور امتی کہہ کر دعویٰ نبوت کریں گے۔
۴… (بخاری ج۲ ص۶۳۳ باب غزوۃ تبوک وھی غزوۃ العسرۃ، مسلم ج۲ ص۲۷۸ باب من فضائل علی بن ابی طالبؓ) میں ہے۔ ’’عن سعدؓ بن ابی وقاصؓ قال قال رسول اﷲﷺ لعلیؓ انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الاانہ لانبی بعدی۰ وفی روایۃ المسلم انہ لا نبوۃ بعدی‘‘ {حضورﷺ نے علیؓ سے فرمایا کہ تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارونؑ کو موسیٰ علیہ السلام سے نسبت تھی ۔ مگر میری نبوت کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ مگر میری نبوت کے بعد نبوت نہیں ہے۔} لہٰذا ہارون کی طرح منصب نبوت میں شریک نہیں ہوسکتے۔