حضورﷺ کی بعثت کا فہ عامہ سے ان کی یہ ڈیوٹی بھی ختم ہوگئی۔ اب آخر زمانہ میں ان کا نزول فرمانابحیثیت نبوت یعنی نبی ہونے کی حیثیت سے نہ ہوگا یعنی امت محمدیﷺ کی طرف رسول بن کر تشریف نہ لائیں گے گو وہ عنداﷲ بعد نزول بھی ویسے ہی اولو العزم نبی ہوں گے۔ جیسے قبل رفع اور قبل نزول تھے۔ بلکہ بحیثیت امامت اور خلافت تشریف لائیں گے اور اسی شریعت کے پابند ہوں گے۔ ’’ینزل فیکم ابن مریم حکما مقسطا (بخاری ج۱ ص۴۹۰ باب نزول عیسیٰ بن مریم، مسلم ج۱ ص۸۷ باب نزول عیسیٰ بن مریم)‘‘
’’فی حدیث ابن عساکر الا ان ابن مریم لیس بینی وبینہ نبی ولارسول الا انہ خلیفتی فی امتی من بعدی (فتاوی ابن حجر مکی ص۱۵۴)‘‘ یعنی ابن عساکر کی حدیث میں ہے کہ ابن مریم اور میرے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں ہوا۔ لیکن وہ میری امت میں میرے بعد خلیفہ ہوں گے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رہے کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ اس وقت نبوت سے معزول ہوجائیں گے۔ بلکہ آپ کا اس وقت اس امت میں تشریف لانا بالکل ایسا ہوگا جیسے ایک صوبہ کا گورنر دوسرے صوبہ میں جہاں اس کا وطن ہے۔ بغرض زیارت والدین اور خبر گیری اہل وعیال جائے تو اگرچہ بحیثیت گورنری وہ اس وقت نہیں ہوتا اور اس کا اس صوبہ میں درود بحیثیت گورنر ہونے اس کے صوبہ کے نہ ہوگا۔ بلکہ وہاں کے قانون کی پابندی کرے گا۔ لیکن یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ گورنری سے معزول ہوگیا۔ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے نبی بعد نزول بھی ہوں گے یہ نہیں کہ وہ نبوت سے معزول ہوگئے۔ بلکہ اس وقت حضورﷺ نبی صاحب الزمان کے زمانہ میں حضورﷺ ہی کا اتباع کرنا ہوگا اور وحی شریعت گولازم نبوت ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہروقت اور ہر آن اس پر وحی شریعت نازل ہوتی ہے۔ اگر نازل نہ ہوتو وہ نبوت سے بھی علیحدہ ہوجائیں۔ ورنہ نبی پر جب وحی نازل ہوتو نبی ہوا اور جب وحی نہ ہوتو نبوت سے معزول۔ گویا بحالی اور معزولی کا سلسلہ برابر قائم رہے گا۔ اس ایجاد بندہ سے تو حضورﷺ بھی کبھی عہدہ نبوت پر بحال اور کبھی اس سے معزول ہوتے ہوں گے۔ کیونکہ کتنی کتنی مدت تک جیسے قصہ افک میں ایک ماہ برابر، ابتداء وحی میں تین سال وحی کا آنا موقوف رہا تھا تو کیا حضورﷺ بھی نبوت کے عہدہ سے معزول ہوجاتے ہوں گے؟۔ معاذاﷲ! بے شک عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو وحی نبوت نہ لائیں گے۔ کیونکہ بحکم قرآنی ’’اکملت لکم دینکم (مائدہ:۳)‘‘ دین کامل ہے اور وحی نبوت کی حاجت نہیں بلاضرورت کام کرنا شان خداوندی کے خلاف ہے۔ اس سے قبل ان پر وحی نبوت نازل ہوچکی۔ نزول کے بعد ان پر وحی الہام ہوگی۔ نہ وحی نبوت۔ الغرض حضورﷺ کی بعثت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام قوم بنی اسرائیل کی طرف صاحب الزمان رسول تھے اور حضورﷺ کی بعثت کافہ عامہ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاحب الزمان رسول نہیں رہے۔ قیامت تک حضورﷺ ہی صاحب الزمان رسول ہیں۔ پس ہر قسم کا نبی جو منصب نبوت کی ڈیوٹی پر فائز اور صاحب الزمان ہوحضورﷺ کے بعد ہرگز نہیں ہوسکتا۔ باقی رہا مسیح بن مریم علیہ السلام کے آنے کا عقیدہ سو خود مرزاقادیانی موافق عقیدے مسلمانوں کے اس کو تواتر کا اوّل درجہ مان چکے ہیں۔ چنانچہ (ازالہ اوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰) میں لکھتے ہیں۔ ’’مسیح بن مریم کے آنے کی پیشین گوئی ایک اوّل درجہ کی پیشین گوئی ہے۔ جس کو سب نے بالاتفاق قبول کرلیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں۔ کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔ تواتر کا اوّل درجہ اس کو حاصل ہے۔‘‘ انشاء اﷲ اس کا ثبوت عقیدہ نمبر۱۹ میں لکھوں گا۔
رسول اکرمﷺ کی احادیث متواترہ سے ختم نبوت کا ثبوت کہ حضورﷺ کے منصب نبوت کے بعد کسی کو منصب نبوت عطا نہ ہوگا