۱۰… اور تفسیر (درمنثور ج۵ ص۲۰۴) زیر آیت ایضاً میں صحابہؓ اور تابعینؓ اور ائمہ مفسرین کے اقوال کو جمع کر کے آیت مذکور کی تفسیر وہی قرار دی ہے۔ جو مذکور ہوچکی کہ آنحضرتﷺ آخرالنبیین ہیں۔ حضورﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت نہ دیا جائے گا۔ تلک عشرۃ کاملۃ!
نوٹ! یہ اختصاراً دس تفسیروں کے حوالے پیش کئے گئے اور صرف چند مشہور اور مستند مفسرین کے اقوال ہدیہ ناظرین کئے گئے ہیں۔ ورنہ متقدمین اور متاخرین علماء کی جس کی تفسیر کو دیکھو گے یہی مضمون پائو گے اور سب نے اسی مضمون کو واضح بیان فرمایا ہے۔
غرض آخرالانبیاء اور خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آپؐ کے بعد کسی کو منصب نبوت نہ دیا جائے گا۔ جیسے خودرسول اکرمﷺ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا: ’’اطمئن یاعم فانک خاتم المہاجرین فی الھجرۃکما اناخاتم النبیین فی النبوۃ (کنز العمال ج۱۱ ص۶۹۹ حدیث نمبر۳۳۳۸۷وفی روایۃ عن سہل بن الساعدیؓ قدختم بک الھجرۃ کما ختم بی النبییون رواہ الطبرانی۰ ج۶ ص۱۵۴ حدیث ۵۸۲۸ وابونعیم وابو یعلی وابن عساکر وابن النجار)‘‘ یعنی اطمینان رکھ اے چچا آپ خاتم المہاجرین ہو ہجرت میں، جیسے میں نبوت میں خاتم النبیین ہوں ہجرت آپ پر ختم ہوگئی۔ جیسے نبوت مجھ پر ختم ہوگئی۔ کیا کوئی ذی عقل اس کے یہ معنی سمجھ سکتا ہے کہ تمام مہاجرین اس وقت تک مر چکے تھے کوئی باقی نہ رہا تھا بلکہ یہ معنی ہیں کہ آپ آخر المہاجرین ہیں۔ آپ کے بعد مکہ سے کوئی ہجرت نہ کرے گا اور وصف ہجرت مکہ سے کوئی موصوف نہ ہوگا کہ لاھجرۃ بعد الفتح یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت مکہ سے نہ ہوگی یا مثلاً کوئی شخص کہے فلان خاتم الاولاد کیا کوئی عقلمند اس کے یہ معنی سمجھے گا کہ اس کی سب اولاد یں مر گئیں۔ صرف یہ ایک باقی رہ گیا بلکہ باتفاق اہل عربیت اور باجماع عقلاء دنیا اس کے یہی معنی سمجھے جاتے ہیں کہ یہ سب سے آخر میں پیدا ہوا اس کے بعد کسی بچہ کی ولادت نہیں ہوئی۔ ’’مثل ذلک آخرالفاتحین۰ آخر المجالسین۰ آخر الخلفائ۰ آخر القضاۃ‘‘ وغیرہ وغیرہ غرض ان سب میں انقطاع وصف ہوتاہے نہ انقطاع ذات خواہ حقیقتاً جیسے کلام الٰہی میں خواہ مبالغۃً جیسے کلام شعراء میں خواہ ادّعاء اً جیسے مواقعہ حسن ظن میں اور اس طرح آخر باعتبار مرتبہ بھی حقیقتاً یامبالغۃً یا ادّعا ء اور نیز خود مرزاقادیانی نے (تریاق القلوب ص۱۵۷، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹، براہین حصہ پنجم ص۸۶، خزائن ج۲۱ ص۱۱۳) میں اس معنی کی تصریح کی ہے جو پہلے عرض کر چکا۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا من محمد! محمدؐ کون ہے۔ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا آخر ولدک من الانبیاء (کنزالعمال ج۱۱ ص۴۵۵ حدیث ۳۲۱۳۹)اور حضورﷺ نے فرمایا آخرھم فی البعث (کنز العمال ج۱۱ ص۴۵۲ حدیث۳۲۱۲۶) یعنی میں بعثت میں سب نبیوں سے آخر ہوں۔ تفسیر (ابن کثیر ج۶ ص۳۴۲)اسی وجہ سے کشاف ابوالسعود مدارک شرح مواہب زرقانی روح المعانی وغیرہ وغیرہ تفاسیر میں ہے معنے کونہ آخر الانبیاء انہ لا ینباء احد بعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ! یعنی آخر الانبیاء ہونے کے یہ معنی ہیں کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا اور عیسیٰ علیہ السلام ان نبیوں میں سے ہیں جن کو منصب نبوت پہلے عطا کیا جاچکا ہے بے شک حضورﷺ آخر الانبیاء ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی شخص منصب نبوت پرنہیں آسکتا۔ نیا ہو یا پرانا اور نہ آپؐ کے بعد وحی نبوت ہوسکتی ہے خواہ نئے احکام نازل ہوں خواہ شریعت اسلام ہی کے مطابق دوبارہ شریعت نازل ہو اور قیامت تک حضورﷺ ہی صاحب الزمان رسول ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہلے کے نبی ہیں جو اپنے زمانہ میں منصب نبوت کی ڈیوٹی پر قائم تھے اور ان کی بعثت اپنے زمانہ میں بھی صرف بنی اسرائیل کی طرف تھی نہ تمام عالم کی طرف جیسا کہ آیہ کریمہ ’’رسولا الیٰ بنی اسرائیل (آل عمران:۴۹)‘‘ سے ظاہر ہے۔ لیکن