۴… ’’قل یایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاء (اعراف:۱۵۸)‘‘ {فرمادیجئے کہ اسے لوگو! میں تم سب کی طرف اﷲتعالیٰ کا رسولﷺ ہوں۔}
نوٹ! یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کر رہی ہیں کہ حضورﷺ بغیر استثناء تمام انسانوں کی طرف رسولﷺ ہوکر تشریف لائے ہیں۔ جیسا کہ خود حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ انا رسول من ادرکت حیا ومن یولد بعدی!
(کنزل العمال ج۱۱ ص۴۰۴، حدیث نمبر۳۱۸۸۵، وخصائص کبریٰ ج۲ ص۱۸۸)
پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ قیامت تک آپؐ ہی صاحب الزمان رسول ہیں۔ بالفرض اگر آپؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہوتو حضورﷺ کافۂ ناس کی طرف اﷲتعالیٰ کے صاحب الزمان رسول نہیں ہوسکتے۔ بلکہ براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اﷲ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہوگا۔ ورنہ نجات ممکن نہیں اور حضورﷺ کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا اس کے ضمن میں داخل ہوگا۔
۵… ’’وما ارسلنک الارحمۃ للعالمین (انبیائ:۱۰۷)‘‘ {میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔}
نوٹ! یعنی حضورﷺ پر ایمان لانا تمام جہان والوں کی نجات کے لئے کافی ہے۔ پس اگر بالفرض آپؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہوتو آپؐ کی امت کو اس پر اور اس کی وحی پر ایمان فرض ہوگا اور اگر آنحضرتﷺ پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی پر ایمان نہ لائے تو نجات نہ ہوگی اور یہ رحمتہ للعالمین کے منافی ہے کہ اب آپؐ پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں۔ آپؐ صاحب الزمان رسول نہیں رہے۔
۶… ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (مائدہ:۳)‘‘ {آج میںنے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام ہی پسند کیا۔}
نوٹ! گوہر نبی کا دین اپنے اپنے زمانہ کے اعتبار سے کافی تھا۔ مگر ہر نبی بعد کو مبعوث ہونے والے اپنی نبوت اور اپنی وحیوں پر ایمان لانے کو دین میں اضافہ کر کے دین کی تکمیل کرتے چلے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ حضورﷺ مبعوث ہوئے اورآپؐ کی بعثت سے آپؐ کی وحیوں کے نزول کے اختتام پر دین کا اکمال کردیا کہ آپؐ کی نبوت اور وحیوں پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کو مشتمل ہے۔ اسی لئے اس کے بعد ’’واتممت علیکم نعمتی‘‘ فرمایا نہ’’فیکم‘‘ یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا۔ لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد کسی کو منصب نبوت نہیں مل سکتا کہ جس کی نبوت اور وحی پر ایمان لایا جائے۔ ورنہ دین کامل نہ ہوگا اور نہ نعمت نبوت کا اتمام ہوگا۔ کیونکہ اس کے بعد ایک نبی کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کا اور اضافہ ہوگا۔ جو دین کا اعلیٰ رکن ہوگا۔ اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمرؓ سے کہا تھا کہ اے امیر المومنین قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے (رواہ البخاری ج۲ ص۶۶۲، باب الیوم اکملت لکم دینکم) اور حضورﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ۸۱دن زندہ رہے اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال وحرام نازل نہیں ہوا۔