دعائیں قبول کروں گا۔ مگر شرکاء کے بارہ میں نہیں‘‘ کسی شخص کو اس کے جائز حق سے محروم کرنے کے واسطے دعاکرنا کہاں تک قرین انصاف اور شان نبوت کے مناسب ہے؟۔ اس کا فیصلہ خود ناظرین کر لیں۔
ولادت ووفات: مرزاقادیانی کی پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں ہوئی اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور میں فوت ہوکر قادیان دفن کئے گئے۔ بتدریج مرزاقادیانی نے متعدددعوے کئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے دعویٰ کرنے میں اس قدر دجل وفریب اور چالاکی سے کام لیا ہے کہ ان کی دوچار کتابوں کو دیکھ کر یہ معلوم کر لینا کہ وہ کون اور کیا تھے؟۔ ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ مرزاقادیانی کی تالیفات تلبیس اورمتضاد باتوں سے پر ہیں۔ جب تک کہ اسلامی تعلیم سے کماحقہ واقفیت نہ ہو اور تیقظ وتدبر کے ساتھ ان کی کافی کتابوں کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ ان کے دعوئوں اور دلائل کی حقیقت منکشف نہیں ہوسکتی۔ چونکہ مرزاقادیانی نے ملک کے سامنے اپنے آپ کو باکمال لوگوں کی صورت میں پیش کیا تھا۔ اس وجہ سے تمام چیزیں کراماتی رنگ میں ظاہر کرتے تھے۔ حامی سنت ماحی بدعت جامع منقول ومعقول حاوی فروع واصول حضرت مولانا مولوی عبدالغنیؒ خان صاحب پٹیالوی صدر مدرس مدرسہ عین العلم شاہ جہاں پور کی اس جدید تالیف کو جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ پڑھ لینے کے بعد انشاء اﷲ تعالیٰ ہرفہیم پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ شرعی نقطۂ نظر سے مرزاقادیانی کی حیثیت کیا ہے؟۔ مولانا موصوف نے اس کتاب میں مرزاقادیانی کے دعوئوں اور ان کے اصولی عقائد سے محققانہ بحث کی ہے۔ ۱۹۲۷ء میں محلہ تارین تکلی شاہ جہان پور کی مسجد پر مرزائیوں اور مسلمانوں میں جو مقدمہ درپیش تھا۔ جس میں کہ اہل اسلام ہائیکورٹ الہ آباد تک کامیاب رہے۔ اس میںآپ گواہ تھے اس سلسلہ میں آپ کو مرزاقادیانی کی تصنیفات اور دیگر موافق ومخالف کتابوں کے مطالعہ کا اتفاق ہوا۔ تمام چھان بین کے بعد آخر میں جس نتیجہ پر پہنچے اس کو مولانا موصوف نے بغرض افادہ عام اس کتاب ۱؎ میں حوالہ قلم فرمایا ہے۔ مسلمانوں اور مرزائیوں کے عقائد علیحدہ علیحدہ درج ہیں۔ اسلامی عقائد کے ثبوت میں قرآن وحدیث اور اکابر امت کی تصریحات پیش کی گئی ہیں اور مرزائی عقائد کے بیان میں مرزاقادیانی اور ان کے خلیفہ وغیرہ کی عبارات منقول ہیں۔ اس طریق سے ناظرین کو ہر دو فریق کے عقائد بیک وقت معلوم
۱؎ کتاب کے نام میں ہدایت کے صلہ میں عن تضمین معنی ابعادکی وجہ سے ہے۔ ’’کمافی قولہ تعالیٰ وما انت بھادی العمے عن ضلالتہم (النمل:۸۱)‘‘
کرنے میں بے حد سہولت ہوگی۔ کتاب اس قدر جامع ہے کہ اس کو پڑھ لینے کے بعد ناظرین بیسیوں کتابوں کے مطالعہ سے مستغنی ہوجائیں گے۔
مرزائی مذہب کی تنقیح اور جانچ پڑتال میں کوئی بحث ایسی نہ ہوگی جس پر اس میں کافی روشنی نہ ڈالی گئی ہو۔ ختم نبوت اور حیات مسیح کی بحث خاص طور پر قابل دید ہے۔ ممکن ہے کہ بعض صاحبان کو کتاب ضخیم نظر آئے لیکن جن حضرات نے مرزائی رسائل اور ان کے قیل وقال کا مطالعہ کیا ہے وہ یقینا اس کو مختصر قرار دیں گے۔ حضرت مولانا نے عموماً مرزائیوں کے دلائل کا چھوٹے چھوٹے جملوں سے ابطال کیا ہے۔ بعض جگہ محض اشارات پر بھی اکتفاء کیا گیا ہے۔ ناظرین کو چاہئے کہ کتاب کا بغور مطالعہ فرمائیں۔ مرزائی صاحبان بھی نیک نیتی اور انصاف کے ساتھ اس کو پڑھیں اور حق واضح ہوجانے پر سچائی کو قبول کرلیں۔ خداورسولﷺ کے مقابلہ میں ضد اور نفسانیت پر قائم رہنا مدد دینے کی بات ہے۔ واﷲ الموفق والمعین!