مرزاقادیانی کو واقفیت نہ تھی۔ ابتدائً سیالکوٹ کی کچہری میں محرر ہونے کی حیثیت سے پندرہ روپیہ ماہوارکے ملازم تھے۔ اس کے بعد ترقی کرنے کے شوق میں جب مختار کاری کا امتحان دیا تو اس میں فیل ہوگئے۔ ردوقدح اور بحث ومناظرہ سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔ آریوں اور عیسائیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے تھے۔ حریف کے بمقابل پیشین گوئیاں کرنے میں مرزاقادیانی نہایت جری اور دلیر تھے۔ بڑے سے بڑا دعویٰ کر لینے میں بھی ان کو کچھ تائل نہ ہوتا تھا۔
بددعا: کرنے سے مرزاقادیانی کو خاص ذوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ اسوہ حسنہ کو ملحوظ کر اپنے مخالفین کے لئے رشد وہدایت کی دعا کرتے، زلزلے اور طوفان آنے طاعون اور وبائی امراض میں مبتلاء ہونے کی بددعا کرتے رہتے تھے۔ ڈپٹی عبداﷲ آتھم، مولوی ثناء اﷲ امرتسری، منکوحہ آسمانی محمدی بیگم وغیرہ کے متعلق جو مرزاقادیانی کی پیشین گوئیاں ہیں وہ سب اسی قسم کی ہیں۔ زلزلوں اور وبائوں کے پھیلنے اور مری پڑنے کی خبر سے بے حد مسرور ہوتے تھے۔ خواہ کسی وجہ سے بھی کسی ملک میں طوفان آئیں، مرزاقادیانی یہی ظاہر کرتے کہ میری تکذیب یا عدم تصدیق سے ایسا ہوا ۔
فحش گوئی اور بد زبانی: کرنے سے مرزاقادیانی کو کچھ عار نہ تھی۔ علمائے اسلام وغیرہ پر انہوں نے جو سخت کلامی اور سب وشتم کیا تھا۔ اس کو بعض لوگوں نے چھوٹے چھوٹے رسالوں میں جمع کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو عصائے موسیٰ وغیرہ)
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۴، ۱۵، خزائن ج۲۲ ص۴۴۵، ۴۴۶) پر مرزاقادیانی نے ایک شخص کے متعلق کچھ عربی اشعارمع ترجمہ شائع کئے ہیں۔ ان میںسے تین شعرمندرجہ ذیل ہیںملاحظہ ہوں۔
ومن اللئام اریٰ رجیلا فاسقا
عولا لعینا ً نطفۃ السفہاء
شکس خبیث مفسد ومزور
نحس یسمّے السعد فی الجہلاء
اذیتنی خبثا فلست بصادق
ان لم تمت بالخزی یا ابن بغاء
اور لئیموں میں سے ایک فاسق آدمی کو دیکھتا ہوں
کہ ایک شیطان ملعون ہے۔ سیفہوں کا نطفہ
بدگو ہے اور خبیث اور مفسد اور جھوٹ کو ملمع کر کے دکھانے والا
منحوس ہے جس کا نام جاہلوں نے سعد اﷲ رکھا ہے
تو نے اپنی خباثت سے مجھے بہت دکھ دیا ہے پس میں سچا نہیں ہوں گا