Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

8 - 16
***
اے مالک! تو دیکھ رہا ہے
محترمہ ام فاکہہ زنجانی، جدہ
اے مالک !تو دیکھ رہا ہے، میں آخر وقت تک اسلام پر قائم ہوں. حرا کے جسم میں آگ لگنے لگی، وہ کہہ رہی تھی ”ابا، چاچا! اسلام قبول کر لینا“ پھر گڑھے سے زور زور سے لا الہ الا الله کی آوازیں سنائی دینے لگیں
یہ سچا واقعہ ہندوستان کے صوبے یوپی کے ضلع مظفر نگر کی تحصیل ”بڑھانہ“ جہاں مسلم راجپوتوں کی اکثریت ہے، کے ایک ہندو ” اہر“ (گوالہ) گھرانے کا ہے اور یہ کہانی اسی خاندان کے ایک شخص کی زبانی لکھ رہی ہوں۔
اس کا کہنا ہے کہ میری عمر42 یا43 سال ہے ۔ میرا تعلق ہندو اہر گھرانے سے ہے ، میرا گھرانہ اپنے عقائد کا پختہ لیکن جرائم پیشہ ہے۔ 1987ء کے میرٹھ کے فسادات میں میں نے اپنے باپ او ربھائیوں کے ساتھ مل کر کم از کم20،25 مسلمانوں کو قتل کیا۔ اس کے بعد بجرنگ دل میں شامل ہو گیا۔1990ء میں ،میں نے بابری مسجد کی شہادت کے سلسلے میں ہونے والے فسادات میں شاملی میں کتنے ہی مسلمانوں کو قتل کیا اور 1992ء میں بڑھانہ میں بہت سے مسلمانوں کو مارا، مگر اوپر والے کے بھید بڑے نرالے ہیں۔ آج میں مسلمان ہوں۔ میرے قبول اسلام کے پیچھے ایک بڑا ہی عجیب واقعہ ہے ۔ میری کوئی اولاد نہیں ، میرے بھائی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔ بڑی بیٹی کا نام ہیرا تھا، وہ بہت ہی جذباتی لڑکی تھی، آٹھویں کلاس کے بعد ہم نے اس کی پڑھائی رکوا دی مگر اس نے گھر والوں کی مرضی کے بغیر ضد کرکے ہائی اسکول کا فارم بھر دیا اور پڑھائی میں مدد کے لیے گھر کے برابر میں رہنے والی ایک برہمن لڑکی سے پڑھنے جانے لگی ۔ اس برہمن لڑکی کا بھائی بدمعاش قسم کا تھا۔ اس نے بھولی بھالی ہیرا کو اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا لیا اور اسے بہکا کر اپنے ساتھ لیے ”بڑوت“ کے پاس ایک جنگل میں جہاں اس کا گروہ رہتا تھا، پہنچا۔ ہیرا اس کے ساتھ آ تو گئی تھی، پر اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اور وہ چپکے چپکے روتی تھی۔ اسی گروہ میں ایک مسلمان لڑکا بھی تھا، اسے روتا ہوا دیکھ کر اس سے رونے کی وجہ پوچھی توہیرا نے اس سے کہا کہ میں جذبات میں نادانی تو کر بیٹھی، پر اب میں اپنی غلطی پر پچھتا رہی ہوں۔ اس مسلمان لڑکے کو اس پر ترس آگیا اور اس نے کہا کہ میں بھی کسی مجبوری سے اس گروہ میں شامل ہوا ہوں، پر میں تیری عزت کی حفاظت کروں گا۔ آج سے تم میری بہن ہو اورمیں تمہیں یہاں سے نکالنے کی کوشش کروں گا۔ اس نے ایک پلان بنایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اکثر ہمیں ڈکیتی میں لڑکیوں کی مدد کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، کیوں نہ ہیرا کو اپنے گروہ میں شامل کر لیں ، اس کی بات سب ساتھیوں کی سمجھ میں آگئی۔
کچھ دن بعد جب ساتھیوں کو ہیرا پر بھروسہ ہو گیا تو مسلمان ساتھی نے ہیرا سے کہا کہ تم بڑوت میرے گھر جاکر میرے بھائی سے کہو کہ وہ یہاں آکر گروہ کے دوسرے لوگوں سے کہے کہ تمہیں پولیس نے پکڑ لیا ہے اور واپس تمہارے گھر والوں کو تمہیں دے دیا ہے ۔ دوسری طرف تم تھانے جاکر کہنا کہ تمہیں ڈاکو بڑھانہ سے اٹھا کر لے گئے تھے اور میں کسی طرح چھوٹ کر آگئی ہوں ، ہیرا نے ایسا ہی کیا۔ بڑوت تھانے والوں نے اسے بڑھانہ اس کے گھر پہنچا دیا۔ وہاں کے تھانے میں پہلے سے ہی ہیرا کے اغوا کی رپورٹ اس کے گھر والوں نے درج کروا رکھی تھی۔
ہم نے ہیرا کو اپنے گھر میں رکھ تو لیا، پر اس کی پاکیزگی کو پرکھنے کے لیے بڑھانہ ہسپتال میں اس کا ڈاکٹری چیک اپ کرایا۔ الله کا کرم ہوا کہ ڈاکٹر نے رپورٹ دی کہ اس کی عزت سلامت ہے ۔ ہم نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ اگر اس کی عزت سلامت نہیں ہوئی تو اس کو قتل کر دیں گے ، ہم ہسپتال سے اسے لے کر گھر آگئے۔
مگر اب ہیرا بالکل بدل گئی تھی ۔ وہ اس مسلمان لڑکے کا ذکر کرتی جس نے بغیر کسی لالچ کے اس کی مدد کی تھی ۔ وہ پاس پڑوس کے مسلم گھرانوں میں جانے لگی ، وہاں وہ دین کی باتیں سنتی تو اسے بہت اچھا لگتا، وہاں ایک لڑکی نے کو ”دوزخ کا کھٹکا“ اور ”جنت کی کنجی“ ہندی میں لکھی یہ دو کتابیں اسے پڑھنے کو دیں۔ یہ دونوں کتابیں ہیرا بار بار پڑھتی ، گھر والوں نے یہ کتابیں اس کے پاس دیکھیں تو اسے بہت مارا، مگر اب تک اس کے دل میں اسلام کا نور روشن ہو چکا تھا ۔ وہ چپکے چپکے مسلمانوں کے گھروں میں جاکر اسلام کی معلومات حاصل کرتی رہی ۔
اس کی خواہش پر پڑوسی مسلمان لڑکی اسے ایک مولوی صاحب کے پاس لے گئی ۔ مولوی صاحب نے پہلے اس سے کچھ سوالات کیے، پھر اس نے مولوی صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ اس نے اس مسلم لڑکی سے نماز بھی سیکھنی شروع کر دی اور وقتاً فوقتاً نماز پڑھنے لگی ۔ وہ سوچتی کہ اپنے گھر میں وہ دین پر عمل نہیں کر پار ہی ، اسے اپنے گھر میں گھٹن محسوس ہونے لگی۔ یہ بات اس نے مولوی صاحب سے کہی ، وہ اپنی بیوی کے ساتھ اسے پھلت میں مولوی کلیم احمد صدیقی کے گھر چھوڑ آئے۔ مولوی صاحب نے احتیاط کے طور پر اسے اپنے بہن کے گھر دہلی بھیج دیا۔ وہاں اسے بہت ہی مناسب دینی ماحول مل گیا تھا۔ وہاں رہ کر وہ قرآن کریم بھی پڑھنے لگی اور دینی تعلیم بھی حاصل کرنے لگی۔
وہاں اسے یہ سوچ سوچ کر بہت خوف آتا کہ اگر اس کے والدین او ربھائی بہن کفر کی حالت میں مر گئے تو ان کا کیا ہو گا۔ وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ یہ سوچ کر وہ گھبرا جاتی اور گھنٹوں روتی رہتی اور الله تعالیٰ سے ان کے لیے دعائیں کرتی رہتی۔ اس نے مولوی صاحب سے اپنے گھر جانے کی اجازت مانگی، تاکہ ان کو دین کی دعوت دے سکے ۔ مولوی صاحب نے اسے بہت سمجھایا کہ اگر تم واپس گئیں تو وہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے یا کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں قید کرکے پھر سے ہندو بنا دیں ۔اس کی ضد پر مولوی صاحب نے مجبور ہو کر اسے والدین سے ملاقات کے لیے جانے کی اجازت دے دی اور سمجھایا کہ اگر اسے واقعی اپنے گھر والوں سے محبت ہے تو جاکر انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو اور اس راہ میں اگر تمہیں تکلیف بھی ہوئی تو وہ تکلیف محمد صلی الله علیہ وسلم کی اصل سنت ہے ۔ ہیرا، جس کا نام اب حرا ہو چکا تھا، اپنے گھر آگئی اور اس نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ مسلمان ہو چکی ہے ۔ میں اور میرے بھائی نے اسے لاتوں اور جوتوں سے خوب مارا۔ اس نے کہا اب اسے اسلام سے کوئی نہیں ہٹا سکتا اور وہ ہمیں بھی سچے دین کی دعوت دینے آئی ہے۔
اب ہمارے گھر میں ایک فساد برپا رہنے لگا۔ وہ سب کو مسلمان ہونے کی دعوت دیتی اور ہم اسے مارتے پیٹتے ۔ اس کے بعد حرا کی ماں بیمار ہو کر مر گئیں۔ وہ سب سے یہی کہتی کہ میری ماں نے میرے سامنے کلمہ شہادت پڑھ لیا تھا اس لیے انہیں جلاؤ نہیں، دفناؤ، مگر ہم نے اس کی ایک نہیں سنی۔ حرا کی باتوں سے پریشان ہو کر ہم نے اسے اس کے ماموں کے گھر بھیج دیا، پر انہوں نے بھی اس کی باتوں سے عاجز ہو کر ہمارے گھر واپس بھیج دیا۔
حرا کے مسلمان ہونے کا علم بجرنگ دل کے ذمہ داروں کو ہوا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ میں او ربھائی نے حرا سے کہا کہ ہم تمہیں آج بوا کے گھر لے کر چلتے ہیں ، وہ نہائی دھوئی، نئے کپڑے پہنے، نماز پڑھی اور ہمارے ساتھ چل پڑی ۔ میں اور میرا بھائی اسے ندی کے کنارے لے گئے ۔ وہاں ہم نے پہلے سے ہی ایک گڑھا کھود رکھا تھا۔
سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس دل سے یہ داستان پور ی کروں ، تاہم پوری تو کرنی ہی ہے۔ مجھ درندے چچا نے یہ کہہ کر اس پھول سی بچی کو گڑھے میں دھکا دے دیا کہ تو ہمیں نرک ( جہنم) کی آگ سے بچانے آئی تھی ، اب خود اس آگ کا مزہ چکھ ، اس کے اوپر پیٹرول ڈال کر میں نے اس میں آگ لگا دی۔ اس وقت میرے بھائی یہ منظر نہ دیکھ سکے اور دور کھڑے ہو کر رونے لگے۔ حرا کے جسم میں آگ لگنے لگی۔ اس نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور چیخی ”میرے الله! آپ مجھے دیکھ رہے ہیں نا ، آپ کی محبت کے بعد مجھے کسی کی محبت کی ضرورت نہیں ، الله پاک آپ دیکھ رہے ہیں نا ، آخری وقت تک اسلام پر قائم ہوں “۔
پھر اس نے کہا ”ابا ، چاچا ! اسلام ضرور قبول کر لینا۔“ میرے بھائی رو رہے تھے او رکہہ رہے تھے اسے ایک بار اور سمجھا لیتے ۔ میں نے بھائی صاحب کا ہاتھ پکڑا او رگھر واپس لوٹ گیا۔ لوٹتے وقت ہم نے گڑھے کے اندر سے زور زور سے لا الہ الا الله کی آوازیں سنی۔ سچائی یہ تھی کہ اس واقعہ سے میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔
بڑے بھائی صاحب گھر آتو گئے، پر حرا کی آوازیں انہیں سنائی دیتی رہتیں۔ وہ بیمار پڑ گئے ، ان کے دل میں صدمہ سا بیٹھ گیا تھا۔ مرنے سے دو دن پہلے انہوں نے مجھے بلایا او رکہا کہ میرے بھائی ! مجھے لگتا ہے ہم ہی غلط ہیں۔ میں حرا کے دھرم پر مرنا چاہتا ہوں ۔ تم کسی مولوی صاحب کو بلا لاؤ، جس کے ہاتھ پر میں اسلام قبول کر سکوں اور سکون سے مر سکوں ۔ حرا کی موت کے بعد میں بھی ٹوٹ سا گیا تھا۔ میں مسجد کے امام صاحب کو بلا لایا۔ انہوں نے میرے بھائی کو کلمہ پڑھایا اور اس کا نام عبدالرحمن رکھا۔ میرے بھائی کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعدمیں انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کروں۔ یہ خواہش یہاں رہتے ہوئے میں پور ی نہیں کرسکتا تھا، اس لیے علاج کے بہانے دہلی لے گیا اور ان کے مرنے کے بعد وہیں سنگم وہار میں انہیں مسلمانوں کی مدد سے دفنا دیا۔
مجھے لگا جیسے کسی نے ہمار ے پر جادو کرا دیا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے گھر کے لوگ اپنا دھرم چھوڑتے جار ہے ہیں۔ اسی سلسلے میں کسی تانترک سے ملنے ”عون“ جارہاتھا۔ بس میں ڈرائیور نے قوالی چلا رکھی تھی، جس میں رسول ا لله صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کے قصے تھے، جس میں ایک بڑھیا کا بھی ایک قصہ تھا جو رسول صلی الله علیہ وسلم پر گندگی پھینکتی تھی، اس کے بعد وہ کیسے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کی وجہ سے مسلمان ہو جاتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ قصہ سچا ہے تو وہ نبی صلی الله علیہ وسلم جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد ڈرائیور نے پاکستان کے قاری محمد حنیف صاحب کی تقریر لگائی، جس میں مرنے کے بعد کے حالات کا ذکر تھا۔ مجھے شاملی اترنا تھا ، تقریر پوری نہیں ہوئی تھی ، اس لیے میں نے آگے کا ٹکٹ لے لیا اور یہ تقریر جہاں ختم ہوئی وہاں میں اتر گیا۔ اس تقریر نے اسلام سے میرے فاصلے بہت کم کر دیے تھے۔
حرا مولوی کلیم صاحب کے پاس پھلت گئی تھی، میں بھی وہیں پہنچ گیا۔ مولوی صاحب کہیں باہر گئے ہوئے تھے ، اگلے دن انہیں واپس آنا تھا۔ وہیں ایک ماسٹر صاحب کے گھر مجھے ٹھہرا دیا گیا۔ ماسٹر صاحب نے رات میں مجھے مولوی کلیم صاحب کی کتاب ”آپ کی امانت آپ کی سیوا میں “ پڑھنے کو دی۔ اس کتاب کی باتیں میرے دل کو چھو گئیں۔ اگلے دن جب مولوی کلیم صاحب سفر سے واپس آئے تو میں نے ان سے اسلام کے بارے میں پوچھا، انہوں نے اسلام بہت ہی آسان طریقے سے مجھے سمجھایا۔ مغرب کے بعد ہی میں نے ان سے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کر دی اور 13جنوری2000ء کو میں نے کلمہ پڑھ لیا۔ میرا نام عبدالله رکھاگیا۔ میں نے رو رو کر اپنے سار ے گناہوں کی کہانی مولوی صاحب کو سنائی ۔ مولوی صاحب نے تسلی دی کہ اسلام پچھلے سارے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ قرآن مجید میں ہے ” نیکیاں گناہوں کو زائل کر دیتی ہیں “ اس لیے زندگی میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرو اور لوگوں کی مدد کرو۔
مولوی صاحب نے مجھے اسلام سیکھنے کے لیے جماعت میں جانے کا مشورہ دیا۔ میں نے ان سے کچھ وقت مانگا اور گاؤں کی زمین بیچ کر دہلی میں گھر خرید لیا۔ بیوی اور حرا کے بہن بھائی جواب میرے ہی ساتھ تھے انہیں بھی اسلام کی دعوت دی اور پھلت لے جاکر ان کو بھی کلمہ پڑھوایا۔ اس کام میں مجھے ایک سال لگ گیا۔ الحمدلله اب میں نے اپنی زندگی کو دین کی تبلیغ اور غریب وپریشان لوگوں کی مدد کے لیے وقف کر دیا ہے۔ حرا کی قربانی بیکار نہیں گئی ، اس کی قربانی کی وجہ سے آج ہمارا پورا گھرانا مسلمان ہے۔

Flag Counter