Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

12 - 16
***
مطالعہ کی کمی!
محترم یریداحمد نعمانی
”میں کیسے سوسکتا ہوں ؟جبکہ عام مسلمان ہم پر تکیہ کرکے آرام کرتے ہیں اور اپنے مسائل ومعاملات کی گرہ کشائی اور دینی وشرعی راہنمائی کے لیے ہم پر اعتماد کرتے ہیں ۔ایسی صور ت میں اگر میں بھی محوِخواب ہوجاؤں تو دین کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔“
مندرجہ بالا قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مایہ ناز شاگرد امام محمد رحمہ اللہ کا ہے۔گردش روزوشب کی اتھل پتھل نے ہمتوں کو پست اور قویٰ کو کمزور بنادیا ہے۔انحطاط پذیری کی اس فضا میں پختہ کاری کا جوہر مضمحل ہوتا جا رہا ہے۔قوت استدلال ،نکتہ شناسی او رنکتہ آفرینی کے سمند ر میں مطالعہ وتحقیق کے موتی کم یاب بلکہ نایاب ہوتے جارہے ہیں۔عوام کی بات بر طرف۔ خواص کے طبقے میں شمار کیاجانے والا طلبہٴ علوم دینیہ کا حلقہ،تحقیق وجستجو،عرق ریزی ودل سوزی اور جزرسی وباریک بینی جیسے عنوانات سے ناآشناونامانوس ہوتاجارہا ہے۔وجوہات واسباب کیا ہیں؟اس روگ ِکم ہمتی ،کم مائیگی اور سھل انگاری کا مداوا کیا ہے؟”گلستان مطالعہ “سے عدم رغبت والتفات اور تباعد طبع کا تدارک کس طور وصورت کیا جانا ممکن ہے؟آئیے !عبارات اکابر کی روشنی میں ان غور طلب سوالات کے تسلی بخش جوابات تلاش کرتے ہیں۔
مطالعہ سے عدم دلچسپی وبے رغبتی کا ایک بڑا عذرلنگ یہ ہوتا ہے :”جی نہیں لگتا“۔اس بابت حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں:”رہا جی نہ لگنا سو میں کہتاہوں کہ یہ صرف حیلہ ہے اور لاپرواہی کی دلیل ہے، ورنہ جناب اگر کسی پر مقدمہ فوج داری کا قائم ہوجائے اور وہ سن لے کہ قانون میں کوئی نظیر میرے لیے مفید ہے تو اگرچہ قانون کے دیکھنے میں جی نہ لگے، بلکہ سمجھ میں بھی نہ آئے، مگر جان مارے گااور دیکھے گا،اس وقت یہ نہ ہوگا کہ بجائے قانون کے کوئی اور دلچسپ چیز مثلاً الف لیلی (یا کوئی اور ناول)لے کے بیٹھے۔اس وقت تو دل کو لگی ہوگی ۔“
ساتھ ہی ساتھ مطالعہ کی اہمیت سے ناواقفیت اور کتب بینی کے ذوق وشوق کا فقدان بھی چمنستان علم وتحقیق کی نوردی سے مانع نظر آتاہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ استعداد وصلاحیت کی منزل تک پہنچنے کی پہلی سیڑھی بلا شبہ مطالعہ کتب ہے۔اس کی مشاہداتی مثال دیتے ہوئے حکم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”مطالعہ کی برکت سے استعداد اور فہم پیدا ہوتاہے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کپڑا رنگنے کے لیے پہلے اس کو دھویا جاتاہے ،پھر رنگ کے مٹکے میں ڈالا جاتاہے اور اگر پہلے نہ دھویا جائے تو کپڑے پر داغ پڑ جاتے ہیں، اسی طرح مطالعہ نہ کیا جائے تو مضمون بھی اچھی طرح سمجھ میں نہیں آتا“۔
درحقیقت ”زمانہ تعلم “میں اگر مطالعہ کی رغبت،اشتیاق اور میلان بیدار ہوگیا تو ساری زندگی کے لیے متاع بے بہا ہاتھ آجاتی ہے ،وگرنہ عمر بھر یہ ذوق کا رآمد پید انہیں ہوپاتا۔کتاب سے بعد کو قرب میں بدلنے کے لیے، احساس ِاجنبیت کو اپنائیت کے رنگ میں منقلب کرنے کے لیے اور ذہن وقلب کو روحانی بالیدگی کا سامان بہم پہنچانے کے لیے ضروری ہے ،اکا بر واسلاف کے نصیحت آموز حالات وواقعات کو چشم قلب سے پڑھاجائے۔ رفتہ رفتہ طبعیت کی ساخت اس سانچے میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔غوروفکر کے نئے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔احساس وشعور پر علم وعمل کے نوبہ نو باب کھلتے جاتے ہیں۔بالآخر ”نقوشِ رفتگاں“میں کتب بینی کی عظمت ،اہمیت اور افادیت کا گوہر آبدار ہاتھ آجاتاہے۔
رہا یہ سوال کہ مطالعہ کو کا رآمد کیسے بنایا جاتاہے؟اُس سے حاصل ہونے والے علمی جواہرات کو کیسے محفوظ کیا جائے؟تحریر کی معنویت سے بھرپور استفادہ کیوں کر ممکن ہوسکتاہے ؟توجناب ِمن !اس کے لیے ضروری ہے کہ بوقت مطالعہ ذہن کو تفکرات اور انتشار فکر سے بچاکر مکمل طورپر حاضررکھا جائے۔ تاکہ”کتاب خوانی“محض پڑھنے تک محدود نہ ہو، بلکہ عبارت کا مطلب ومفہوم بھی ذہن نشین کرنے کی سعی وکوشش ہو ۔دوم،قبل ازمطالعہ ”قلم وقرطاس“کا پاس ہونا حاصل مطالعہ کو پختہ ،محفوظ اور مفید بنانے کا بنیادی اور کلیدی عنصر ہے ۔دوران مطالعہ ”اہم اور اہم تر“کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم عبارات، بنیادی باتوں اور عمدہ نکتوں کو نشان زد کر لیا جائے۔ سوم، پسندیدہ ابحاث،قابل ذکر عنوانات ،ادبی لطائف واشعار اور سیرت وسوانح کے متاثر کن واقعات سمیت ہر وہ بات ونکتہ جو پہلی نظر میں دل ودماغ کے تاروں کو ہلادے ۔اس کو نوٹ کرنے کے لیے الگ بیاض ترتیب دی جائے۔جس سے آگے چل کر علمی وعملی زندگی میں بھر پور استفادہ وراہنمائی لینا سہل وآسان ہے ۔
یہ امر محتاج دلیل نہیں ہے کہ شوق مطالعہ کی کمی اور کمزوری طالب علم دین کے لیے سخت مضر اور سم قاتل ہے ۔بلند فکری ،وسعت علمی اور تعمق نظری کے نظریاتی اور فکری اسلحہ سے تہی دستی امت کے مستقبل کے نگہبانوں اور پاسبانوں کا شعار نہیں ۔”عشق ِکتاب“ کے اس سفر میں جاں سوزی اور بلاکوشی اٹھائے بغیر ملت کی سیادت وقیادت کے فرائض سے عہدہ برآ ہونا کارِمحال ہے ۔بقول مولانا اسعد اللہ صاحب ناظم مظاہرالعلوم : #
انسان کو بناتا ہے اکمل مطالعہ
ہے چشم دل کے واسطے کا جل مطالعہ
ناقص تمام عمر وہ رہتے ہیں علم سے
ہوتا نہیں ہے جن کا مکمل مطالعہ 
کھلتے ہیں راز علم کے انہی کے قلوب پر 
جو دیکھتے ہیں دل سے مسلسل مطالعہ

Flag Counter