Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1431ھ

ہ رسالہ

5 - 16
***
عید الفطر
محترم محمود حسن بن عبدالرحمن
عید الفطر قریب ہے ،جو مسلمانوں کی خوشی اور الله کی مہمانی کا دن ہے ، اس دن ہر شخص مسرور ہوتا ہے اور اس خوشی کے اظہار کے لیے وہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے میں فراخی کرتا ہے، شریعت اسلامیہ اس بات کی متقاضی ہے کہ جس طرح یہ دن صاحب ثروت اور غنی مسلمانوں کے لیے خوشیوں کا سامان مہیا کرتا ہے، اسی طرح فقراء ومساکین بھی اپنے غموں کو بھول کر ان مسلمانوں کے ساتھ اس بابرکت دن کی خوشیوں میں شریک ہوں، لہٰذا اسی مناسبت سے شریعت اسلامیہ نے صدقہ فطر کا حکم دیا ہے اور باقاعدہ اس کے فضائل وفوائد عظیمہ کو بیان کیا ہے، جو مندرجہ ذیل احادیث وعبارات سے واضح ہیں۔
”فرض رسول الله صلی الله علیہ وسلم زکاة الفطر طھراً للصیام من اللغو والرفث وطعمة للمساکین، فمن اداھا قبل الصلاة فھی زکاة مقبولة، ومن أداھا بعد الصلاة فھی صدقة من الصدقة“․ ( ابوداؤد)
ترجمہ: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزے داروں کو بے کار اور بے ہودہ باتوں سے پاکیزگی اور مساکین کو کھلانے ( یعنی ان کی مدد وغیرہ) کے لیے مقرر فرمایا، پس جس نے اس کو عید کی نماز سے پہلے ادا کر دیا تو یہ مقبول صدقہٴ فطر ہے او رجس نے عید کی نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقہ ہے ( یعنی عید کی نماز سے پہلے ادا کیے گئے صدقہ کے برابر فضیلت نہیں رکھتا)۔
اسی طرح حضرت جریر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”صوم شھر رمضان معلق بین الماء والأرض، لا یرفع إلا بزکاة الفطر“․ ( الترغیب والترھیب)
ترجمہ: رمضان کے روزے آسمان او رزمین کے درمیان معلق (لٹکے) رہتے ہیں ، جنہیں(الله کی طرف) صدقہٴ فطر کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا،” فرض رسول الله صلی الله علیہ وسلم زکاة الفطر، وقال: اغنوھم فی ھذا الیوم“ ( سنن الدار قطنی)
ترجمہ: الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صدقہٴ فطر کو فرض (یعنی واجب) قرار دیا اور فرمایا:” غریبوں کو اس دن غنی کر دو ( یعنی ان کے ساتھ مالی معاونت کرو)۔“
جس طرح حدیث پاک میں گزرا کہ صدقہٴ فطر کی بدولت روزے الله کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، اسی طرح علمائے کرام فرماتے ہیں کہ: ”قالوا: وفی إخراجھا قبول الصوم، والنجاح، والفلاح، والنجاة من سکرات الموت، وعذاب القبر“․ (طحطاوی علی مراقی الفلاح)
ترجمہ: علما نے فرمایا کہ صدقہٴفطر کی ادائیگی سے روزے قبول ہوتے ہیں او رمشکل آسان ہوتی ہے اور کامیابی ملتی ہے او رموت کی سختی اور قبر کے عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔
مشکوٰة شریف کی شرح مرقاة المفاتیح میں مذکور ہے کہ : ”یقال: صدقة الفطرة وزکاة الفطر أو الفطرة، کأنھا من الفطرة التی ھی الخلقة، فوجوبھا علیھا تزکیة للنفس أی تطھیراً لھا وتنقیة لعملھا“․ ( مرقاة الفاتیح،159/4)
ترجمہ: صدقہ فطر کو ” صدقہٴ فطرہ اور ”زکاة فطر“ یا ” زکاة فطرہ“ بھی کہا جاتا ہے، گویا صدقہٴ فطر اس فطرت سے تعلق رکھتا ہے جو کہ پیدائش ہے ، لہٰذا صدقہٴ فطر کا اس پر واجب ہو نا نفس کو پاک کرنے کے لیے اور نفس کے عمل کو پاکیزہ بنانے کے لیے ہے۔
مذکورہ احادیث وعبارات سے معلوم ہوا کہ صدقہٴ فطر ادا کرنے سے یہی نہیں کہ صرف شرعی حکم پورا ہو جاتا ہے ، بلکہ اس کے اور بھی بے شمار دنیا وآخرت کے فوائد ہیں، ظاہر ہے کہ اکثر انسان سے روزے میں بھول چوک یا کوئی خطا دانستہ یا نادانستہ طور پر سرزد ہو جاتی ہے ، لیکن ہمارا یہ صدقہٴ فطر اس کی تلافی کا انتظام کر دیتا ہے۔
اسی طرح وفقراء وہ مساکین جو نئے جوڑے او رکپڑے تو درکنار، اپنی دن بھر کی خوراک وغیرہ کا بھی انتظام نہیں کرسکتے، ان کے لیے خوراک وغیرہ کا انتظام ہو جاتا ہے او روہ بھی کسی درجے میں عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔
اس کے ذریعے انسان کے رزق میں برکت ہوتی ہے ، مشکل آسان ہوتی ہے ، کامیابی ملتی ہے، موت کی سختی دور ہوتی ہے اور قبر کی منزل آسان ہو جاتی ہے اور عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے ۔ گویا صدقہ فطر کی ادائیگی سے وہ امور جو قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، ختم ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
صدقہٴ فطر کی کیفیت
صدقہٴ فطر اسی شخص پر واجب ہے جو آزاد او رمسلمان ہو اور ایسے نصاب کا مالک ہو ، جو اس کی اصلی حاجتوں سے زائد ہو اور اس کے نصاب میں زکوٰة کے نصاب کی طرح مال کا بڑھنا شرط نہیں اور نہ ہی اس پر سال گزرنا شرط ہے او راسی قسم کے نصاب سے قربانی اور اقارب کا نفقہ واجب ہوتا ہے۔ (مراقی الفلاح:732)
صدقہ فطر واجب ہونے کی شرائط
صدقہٴ فطر واجب ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
(1) آزاد ہونا، غلام پر صدقہ فطر واجب نہیں ،کیوں کہ اس کی کسی چیز پر ملکیت نہیں ہوتی۔
(2) وہ شخص مسلمان ہو ، چناں چہ کافر پر صدقہٴ فطر واجب نہیں ہے، کیوں کہ یہ عبادت ہے اور کافر شخص عبادت کا اہل نہیں۔
(3) وہ شخص صاحب نصاب ہو اور وہ نصاب اس کی اور اس کے اہل وعیال کی اصلی ضرورتوں سے زائد ہو، حوائج اصلیہ یا اصلی ضروریات سے زائد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً: کسی شخص کے دو گھرہیں ایک میں خود رہتا ہے او رایک خالی پڑا ہے یا کرایہ پردے رکھا ہے ، تو دوسرا مکان ضرورت سے زائد ہے ، اب اگر اس کی قیمت اتنی ہو جتنی قیمت پر زکوٰة واجب ہوتی ہے تو اس پر صدقہ فطر واجب ہے، البتہ اگر مالک کا اسی مکان پر گزر اوقات ہے (یعنی آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے) تو یہ مکان بھی ضروری اسباب میں داخل ہے او راس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔ ( تاتارخانیہ:418/2)
واضح رہے کہ جس شخص پر زکوٰة فرض ہے اس پر صدقہٴ فطر بھی واجب ہے ، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ زکوٰة کے نصاب میں تو سونا، چاندی ، نقدی یا مال تجارت کا ہونا ہی ضروری ہے ، جب کہ صدقہ فطر میں ان چار مالوں کے علاوہ بھی ہر قسم کا مال نصاب میں شامل ہوتا ہے ، البتہ ایک چیز ان دونوں نصابوں میں مشترک ہے کہ روز مرہ کی ضرورتوں سے زائد ہو اور قرضے سے بچا ہوا ہو۔ ( مجمع الأنٰہر، 277,226/1) چناں چہ اگر کسی شخص کے پاس روز مرہ کے استعمال کے کپڑوں کے علاوہ اور کچھ کپڑے بھی رکھے ہوں ، یا ضرورت سے زائد تانبے، اسٹیل، چینی وغیرہ کے برتن، ٹی وی، وی سی آر ، ڈش انٹینا یا اسی طرح تزیین وآرائش کا وہ سامان جو استعمال نہیں کیا جاتا ، وہ بھی نصاب میں شامل کیا جائے گا ، اب اگر ان تمام چیزوں کی قیمت نصاب کے برابر یا اس سے زائدہو جاتی ہے ، تو اس پر زکوٰة تو فرض نہیں ہو گی ، لیکن صدقہٴ فطر واجب ہو گا ، اگر چہ وہ عید کے دن طلوع فجر ہونے سے پہلے ہی کیوں نہ ہوا ہو ۔ ( تبیین الحقائق:133/2)
جو صاحب نصاب نہ ہو اس کے لیے حکم
صدقہٴ فطر ادا کرنے کا حکم صرف مال داروں کے ساتھ خاص نہیں ، بلکہ فقراء کو بھی صدقہٴ فطر ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، چناں چہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ” غنی بھی صدقہٴ فطر ادا کرے اور فقیر بھی صدقہ دے “ پھران دونوں کے بارے میں فرمایا کہ : ” الله تعالیٰ اس مال دار کو تو صدقہ فطر ادا کرنے کی وجہ سے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر ( جو مالک نصاب نہ ہو ) اس کو اس سے زیادہ عنایت فرماتا ہے ، جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہے۔“
یہ بشارت اگرچہ مال دار کے لیے بھی ہے ، مگر اس کو فقیر کے ساتھ اس لیے خاص فرمایا کہ اس کی ہمت افزائی ہو ۔( مظاہرحق جدید:58/2)
صدقہ فطر واجب ہونے کا وقت
صدقہٴ فطر عید الفطر کے روز صبح صادق طلوع ہونے کے بعد واجب ہوتا ہے ، پس جو شخص اس سے پہلے مر جائے اس پر واجب نہ ہو گا اور جو شخص اس دن طلوع فجر کے بعد مرے تو اس پر یہ صدقہ واجب ہے ، جو شخص اس سے پہلے پیدا ہوا ہو یا کافر تھا او رمسلمان ہو گیا اس پر بھی صدقہٴ فطر واجب ہے اور اگر اس کے بعد پیدا ہوا ہو یا مسلمان ہوا ہو تو اس پر واجب نہیں ہو گا ، اس لیے کہ وجوب کے وقت وہ اس کا اہل نہیں تھا ۔( عالم گیریہ:192/1)
صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت
عید کے دن سے پہلے بھی صدقہٴ فطر ادا کرنا جائز ہے، بخاری شریف میں حدیث مذکور ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کا یہ عمل آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر مخفی نہ تھا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ (صحیح البخاری:25/1)
لہٰذا فطرہ چاہے رمضان میں دے دیاجائے یا اس سے بھی پہلے دے دیا جائے جائز ہے اور اس میں تاخیر کی بھی گنجائش ہے کہ اگر یوم الفطر سے تاخیر کر دی یعنی عید الفطر کا دن گزر گیا اور صدقہ نہ دیا تو صدقہٴ فطر ساقط نہ ہو گا اور اس کا دینا اس پر واجب رہے گا، اس لیے کہ یہ مالی عبادت ہے جو واجب ہونے کے بعد ادائیگی کے بغیر ساقط نہیں ہوتی، صدقہٴ فطر عمر بھر میں جب بھی ادا کرے گا وہ ادا ہی کہلائے گا،قضاء کرنے والا نہیں کہلائے گا ( عالم گیریہ:192/1)
صدقہ فطر کی ادائیگی کا مستحب وقت
مستحب یہ ہے کہ عید الفطر کے روز طلوع فجر کے بعد عید گاہ جانے سے پہلے صدقہٴ فطر ادا کر دے ، تاکہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل ہو جائے، چناں چہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم عید گاہ کی طرف تشریف لے جانے سے پہلے صدقہٴ فطر نکالتے تھے اور ہمیں حکم فرماتے تھے کہ ہم عید کی نماز سے قبل صدقہٴ فطرادا کریں ، چناں چہ عید گاہ جانے سے قبل اسے تقسیم فرماتے تھے اور یہ فرماتے کہ : ” لوگوں کو اس روز دربدر پھرنے سے بے نیاز وغنی کردو“۔ ( صحیح البخاری:204/1)
صدقہٴ فطر کی مقدار
صدقہ فطر چار قسم کی چیزوں میں ادا کرنا واجب ہے : گیہوں، جو، کھجور، کشمش۔ گیہوں میں نصف صاع ،جوکہ پونے دو سیر بنتا ہے اور باقی تینوں میں ایک صاع، جوکہ ساڑھے تین سیر بنتا ہے ، یا بعینہ یہی چیزیں دے دے ، جیسا کہ دیہات وغیرہ میں یہ چیزیں با آسانی دسیتاب ہوتی ہیں او راگر یہ چیزیں موجود نہ ہوں، جیسا کہ شہر میں تو ان کی قیمت ادا کر دے، نیز آج کل لوگوں نے یہ رواج اپنا لیا ہے کہ صرف گیہوں سے صدقہٴ فطر ادا کرتے ہیں کہ اس کی قیمت کم ہوتی ہے، اس میں حرج نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ مال دار لوگ کھجور اور کشمش وغیرہ کی قیمت سے صدقہٴ فطر ادا کیا کریں، تاکہ فقراء کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو۔
صدقہ فطر کس کی طرف سے دینا واجب ہے ؟
(1) صدقہٴ فطر اپنی طرف سے ادا کرنا واجب ہے ، عوام الناس میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر روزے رکھے گا تو صدقہ فطر ادا کرے گا، اگر نہیں رکھے گا تو صدقہٴ فطر بھی ادا نہیں کرے گا، واضح رہے کہ صدقہٴ فطر روزے نہ رکھنے سے ساقط نہیں ہوتا، روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں، صدقہ فطر کی ادائیگی بہرحال واجب ہے۔ ( شامی:361/2)
(2) اپنے جھوٹے نابالغ بچے کی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے ، البتہ نابالغ غنی لڑکے کا صدقہ اس کے اپنے مال میں سے ادا کیا جائے گا۔ (عالم گیریہ:193/1)
(3) والدین میں سے اگر کوئی فقیرہو یا دماغی توازن برقرار نہ ہو تو اس کا صدقہ اولاد پر واجب ہو گا۔ ( شامی :369/2)
کس کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں؟
(1) جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو اس کی طرف سے ادا نہ کرے، کیوں کہ اس کی حیات معلوم نہیں۔ (شامی:361/2)
(2) بیوی کا صدقہ خاوند پر واجب نہیں۔ ( شامی:363/2) اسی طرح بالغ اولاد اگرچہ وہ اس کے عیال میں سے ہوں اور اپاہج ہوں ، البتہ اگر بالغ اولاد معتوہ ( کم عقل) اورمجنون (پاگل) ہے تو اس کا حکم نابالغ کا ہے، یعنی ان کے اپنے مال میں سے ادا کیا جائے گا۔ ( شامی : 359/2)
(3) اپنے مال دار ماں باپ کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا اولاد پر واجب نہیں، اگرچہ اہل وعیال میں سے ہوں۔ (عالم گیریہ:193/1)
(4) اگر نابالغ لڑکی کی شادی کر دی اور خاوند کے سپرد کر دیا اور وہ خاوند کی خدمت کے لائق بھی ہے اور ا س کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اپنا صدقہٴ فطر ادا کرسکے تو باپ پر اس کا صدقہٴ فطر ادا کرنا واجب نہیں۔ (شامی :362/2)
(5) اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی طرف سے صدقہٴ فطر ادا کرنا واجب نہیں۔ ( عالم گیریہ:193/10)
(6) بالغ فقیر لڑکی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس کا صدقہٴ فطر کسی پر واجب نہیں ۔ (شامی:362/2)
(7) اگر نابالغ فقیر لڑکی کی شادی کر دی اور خاوند کے سپرد بھی کر دی گئی ، لیکن وہ خدمت کے لائق نہیں تو خاوند پر اس کا صدقہٴ فطر ادا کرنا واجب نہیں۔ ( شامی:362/2)
(8) دادا پر بالاتفاق پوتوں کا صدقہ فطر واجب نہیں ، جب کہ اس کا مفلس بیٹا زندہ ہو، البتہ اگر بیٹا زندہ نہ ہو تودادا کو چاہیے کہ وہ ان ( اولاد) کی طرف سے ادا کر دے۔ ( فتاوی قاضی خان:228/1)
صدقہ فطر کن کی طرف سے ادا کرنا جائز ہے ؟
(1) اگر بالغ اولاداور بیوی کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر دے دیا تو ادا ہو جائے گا ، بشرط کہ وہ اس کے عیال میں سے ہوں۔ (عالمگیریہ:193/1)
(2) اپنے اہل وعیال کے علاوہ کسی اور کی طرف سے فطرہ ادا کرنا ان کی اجازت سے جائز ہے ، چناں چہ اگر عورت نے اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر فطرہ ادا کر دیا تو یہ جائز نہیں ۔ ( عالم گیریہ:193/1)
صدقہ فطر کے مصارف
صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰة کے مصارف ہیں اور اس کی ادائیگی کے لیے اس کی نیت کرنا اور فقیر کو اس کا مالک بنا دینا ( کہ وہ اپنی مرضی سے اسے خرچ کر سکے) ضروری ہے۔ ( شامی :344/2)
(1)ایک آدمی کا صدقہ فطر ایک ہی آدمی کو دیا جائے یا تھوڑا تھوڑا کرکے کئی فقراء میں تقسیم کر دیا جائے ، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ ( شامی :368/2) 
(2) کئی آدمیوں کا صدقہٴ فطر ایک ہی آدمی کو دے دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے ، البتہ یہ بات مدنظر رہے کہ دینے والے اتنے آدمی نہ ہوں کہ ان کے مال سے وہ فقیر صاحب نصاب بن جائے ، اس قدر کسی ایک شخص کو دینا مکروہ ہے ۔ ( عالم گیریہ:193/1)
(3) غیر مسلم کو بھی صدقہ فطر دینا جائز ہے ، زکوٰة دینا جائز نہیں۔ (تبینِ الحقائق:119/2)
(4) سادات کو اس زمانے میں بھی زکوٰة، صدقات، چرم قربانی اور صدقہٴ فطر دینا حرام ہے ۔ (شامی :339/2 وکفایت المفتی)
(5) مدرسہ میں صدقہٴ فطر تملیک کرکے دیا جاسکتا ہے ۔ (شامی:471/2)
(6) امام مسجد اگر غنی ہے تو اس کو صدقہٴ فطر دینا جائز نہیں ، اسی طرح اگر فقیر ہو تو بطور تنخواہ دینا جائز نہیں۔ ( فتاوی دارالعلوم دیوبند:213/6)
(7) جو شخص لوگوں کو سحری کے لیے اٹھاتا ہو ، اگر وہ فقیر ہو تو دینا جائز ہے ، البتہ بہتر یہ ہے کہ بطور اجرت نہ دے، بلکہ پہلے بطور اجرت کچھ اور دے دے ، پھر صدقہٴ فطر دے۔ ( شامی:379/2) 
(8) نابالغ فقراء کا صدقہ ان کے سرپرستوں کو دے سکتا ہے اوراگر نابالغ مال دار ہو تو اسے صدقہٴ فطر نہیں دیا جاسکتا ۔ ( شامی:127/2)
(9) اگر ایک شخص کا کسی پرقرض ہے اور وہ قرض دار سے یہ کہے کہ اس میں سے اتنی رقم تم صدقہ فطر کی مد میں منہا کر لو تو اس طریقے سے صدقہٴ فطر ادا نہ ہو گا۔ ( فتاوی دارالعلوم دیوبند:203/6) 
(10) قیدی اگر فقراء ہوں اور ان کے پاس نصاب کے بقدر مال نہ ہو تو وہ مساکین ہیں، ان کو صدقہ فطر ادا کرنا درست ہے۔ ( فتاوی دارالعلوم دیوبند:203/6) 
(11) اگر کسی نے مدرسہ یا فقیر وغیرہ کو منی آرڈر وغیرہ کے ذریعے صدقہٴ فطر بھیجا اور منی آرڈر مل گیا، لیکن رقم نہیں ملی تو صدقہ فطر ادا نہ ہو گا۔ (کفایت المفتی :209/4)
(12) اگر کوئی شخص انتقال کر جائے او راس کے ذمہ زکوٰة، صدقہ فطر، کفارہ یا نذر وغیرہ ہو تو اس کے ترکہ میں سے نہیں لیا جائے گا، لیکن اگر اس کے ورثاء شرعاً ادا کر دیں تو جائز ہے، انہیں مجبور نہیں کیا جائے گا اور اگر مرتے وقت وصیت کی ہو تو جائز ہے او راس کی وصیت اس کے تہائی مال میں جاری ہو گی۔ (عالم گیریہ:193/1) 
(13) اگر کہیں فقراء نہ ہوں تو دوسری جگہ کے فقراء کو صدقہٴ فطر دینے سے ادا ہو گا، صرف اس کی رقم نکال کر علیحدہ کر لینے سے صدقہٴ فطر ادا نہ ہو گا ۔ (عالم گیریہ، باب ثامن:193/1)
اگر اس حکم شرعی میں اس سے قبل ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو ہم اس پر نادم وشرمندہ ہوں، الله سے معافی طلب کریں اور آئندہ باقاعدگی سے صدقہ فطر ادا کریں اور الله سے فراخی، آسانی اور حلال رزق طلب کریں، الله رب العزت ہم سب مسلمانوں کو کامل دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین

Flag Counter