Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

5 - 20
***
تلاوت آداب ومسائل
محترم محمد رمضان
قرآن حکیم وہ زندہ وجاوید کتاب ہے ، جس کے فیوضات وبرکات، علوم ومعارف اور حکمتیں اور احکام تا قیامت جاری وساری رہیں گے۔ قرآن کریم سرچشمہٴ ہدایت ہے او رجس شخص نے بھی اسے غوروفکر توجہ وانہماک اور شوق ورغبت سے پڑھا ہے ، تو قرآن حکیم کی مقناطیسی کشش نے اسے اپنی طرف ایسا کھینچا ہے کہ وہ قرآن کریم کا ہو کر رہ گیا ہے ۔ قرآن دنیا کی وہ واحد ویکتا کتاب ہے جس کے باربار پڑھنے سے دل اکتا نہیں جاتا، بلکہ شوق ومحبت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
اس بابرکت کتاب سے کماحقہ استفادہ اور اس کے انوار وحکمت اور علوم ومعارف حاصل کرنے کا ایک اچھا طریقہ اس کی تلاوت کرنا بھی ہے، اگر اس کی تلاوت آداب ، احکام اور مسنون طریقہ پر کی جائے تو ان شاء الله العزیز اس شخص کی زندگی میں قرآن انقلاب بپا کر دے گا۔ ذیل میں اس کے کچھ آداب تحریر کیے جاتے ہیں ۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے پہلے مسواک کرنا اس کے بعد مسنون طریقے پر وضو کرنا قرآن کریم کی تلاوت پاک، صاف ستھری جگہ پر کرنا۔ بہتر یہ ہے کہ مسجد شریف میں تلاوت کی جائے ۔ کیوں کہ یہ دنیا کی افضل جگہ ہے ۔ مسجد میں تلاوت کرنے سے پہلے نفلی اعتکاف کی نیت کرنا ۔ ( کیوں نفلی اعتکاف ایک پل ولمحہ کا بھی جائز ہے۔) بعض علماء کے نزدیک باتھ روم وغیرہ میں قرآن کریم کی (یاد سے) تلاوت کرنا مکروہ ہے۔ ( امام نووی: التبیان فی آداب حملة القرآن، باب فی آداب القران، ص:42-38 ملخصاً السیوطی الاتقان فی علوم القرآن، باب فی آداب تلاوتہ وتالیفہ:28-25/1 ملخصاً۔)
قرآن کی تلاوت کیسے کی جائے؟
قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے اخلاص نیت ہونا ضروی ہے۔ تلاوت کرتے وقت دل میں یہ خیال لانا کہ گویا میں الله تبارک وتعالیٰ سے مناجات کر رہا ہوں۔ تلاوت ایسی کی جائے گویاکہ تلاوت کرنے والا الله تبارک وتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے ۔ اگر اس میں یہ حال وکیفیت پیدا نہ ہو تو یہ تو ضرور سمجھے کہ الله تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت قبلہ رو ہو کر خشوع خضوع، وقار وادب واحترام کے ساتھ اپنا سرجھکا کر بیٹھنا چاہیے۔ پاک صاف ہو کر جسم کو خوشبو لگانا چاہیے۔ تلاوت کرتے وقت اپنے میسر شدہ کپڑوں میں سے بہتر اور صاف ستھرے کپڑے پہننا چاہیے۔ شروعات میں اعوذ بالله من الشیطن الرجیم اور بسم الله الرحمن الرحیم پڑھنا۔ تلاوت کرتے وقت بیچ میں کسی سے بھی کوئی گفتگو نہ کرنا، جب تک تلاوت پوری کرے ۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ ایسا کیا کرتے تھے۔تلاوت کرتے وقت ریح وغیرہ آئے تو اس کو بند کرکے نہ بیٹھے، بلکہ تلاوت بند کرکے ریح وغیرہ کو خارج پھر ازسرِ نو تازہ وضو کرکے تلاوت شروع کرنا چاہیے۔ تلاوت کرتے وقت ہنسی مذاق اور شور وغوغا سے مکمل طو پر اجتناب کرنا لازم ہے۔(11) ہاتھ سے ڈاڑھی یا دوسرے کسی عضو کو پکڑنا اور کھیلنا مکروہ ہے۔ (12) ہر اس چیز کی طرف نظر کرنا جس سے ذہن اور دل وہاں متوجہ ہوں ، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ (13) خصوصاً نامحرم عورت اور کمر عمر لڑکے کی طرف دیکھنے سے بچنا فرض ہے۔ (14) قرآن کریم یاد سے پڑھنا بغیر وضو کے جائز ہے، مگر افضل واعلیٰ وضو کے ساتھ پڑھنا ہے۔ (امام نووی، التبیان فی آداب حملة القرآن، باب المذکور سابقاً ،ص:51-50,43 الزرکشی، البرھان فی علوم القرآن، باب استحباب الاستیاک والتطہر للقرأن:464-459/1، السیوطی، الإتقان فی علوم القرآن:229-227/1)۔
مسئلہ: قرآن شریف سے دیکھ کر تلاوت کرنا زبانی تلاوت کرنے سے افضل ہے، کیوں کہ اس میں دو عبادتیں ہیں تلاوت قرآن کریم کو دیکھنا۔ اس لیے اس میں زبانی پڑھنے سے اجر وثواب بھی زیادہ ہے ۔ بہت سے صحابہٴ کرام قرآن شریف سے دیکھ کر تلاوت کیا کرتے تھے اور دن میں کم از کم ایک مرتبہ قرآن کریم کی زیارت نہ کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ ( ایضاً التبیان ص:55 ،البرہان:461/1)
مسئلہ: قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت رونا چاہیے یا رونے کی کیفیت پیدا کرنی چاہیے ، یہ الله تعالیٰ کے نیک بندوں اور بزرگوں کی علامت ہے، جو کہ خود قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے﴿ویخرون للاذقان یبکون ویزیدھم خشوعا﴾․ (الاسراء:109)” او رگر پڑتے ہیں اوپر ٹھوڑیوں کے روتے ہوئے اورزیادہ کرتا ہے ان کو عاجزی کرنا“۔
اور جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی فرمایا: ”اقرأوا القرآن، وابکو، فان لم تبکوا فتباکوا․“ 
”قرآن کی تلاوت کرتے وقت رونا۔ اگر رونا نہ آئے تو اپنا چہرہ رونے جیسا کرو ۔“ امام غزالی رحمہ الله نے فرمایا ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتے وقت رونا مستحب ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دل کی اتاہ گہرائیوں اور مکمل توجہ کے ساتھ قرآن پڑھنا چاہیے، دل میں غم وحزن، درد وکرب لائے کہ قرآن کریم میں جہنم اور آگ کی جو وعیدیں ہیں ان پر سوچے اور پھر اپنے گناہوں کو یاد کرکے تضرع والحاح کے ساتھ الله تعالیٰ سے معافی مانگے اور رونے کی بھرپور کوشش کرے۔ اگر اس کے باوجود بھی کسی کو دکھ درد اور غم وحزن لاحق نہ ہو اور رونا نہ آئے تواپنے نہ رونے پر روئے کیوں کہ اس سے بڑھ کر او رکوئی نحوست وبدقسمتی ہو نہیں سکتی کہ دل اتنا سخت ہو جائے ۔ ان شاء الله تعالی اس طریقے پر تلاوت کرتے رہنے سے آج نہیں، تو کل ضرور الله تعالیٰ کی بے ا نتہا رحمت اسے اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔آپ تجربہ کرکے دیکھیں ایسا ضرور ہو گا۔
مسئلہ: قرآن کریم کی تلاوت بآوازِ بلند کرنا مستحب اور افضل ہے ۔ بشرطیکہ ریا کا خطرہ نہ ہو، کیوں کہ اس سے مندرجہ ذیل فوائد ہوں گے اس سے تلاوت کرنے والے شخص کا دل پاک صاف ہوکر چمک اٹھے گا۔ ( اور غافل دل جاگ اٹھے گا۔) اس کی مکمل توجہ قرآن کریم کی طرف ہو گی۔ اس کے کان او رآنکھیں بھی عبادت میں مصروف ہوں گے۔ نیند اور سستی جاتی رہے گی ۔ اس شخص سے سستی اور کاہلی جاتی رہے گی، چست و پھرتیلا ہو جائے گا۔ اس کے ارد گرد اگر کوئی غافل یا کاہل انسان ہو گا تو وہ بھی ہو شیار ہو جائے گا۔ علما نے لکھا ہے کہ ان چھ باتوں میں سے کوئی ایک نیت کرے تب بھی بآوازِ بلند پڑھنا افضل ہے۔ اگر یہ سب نیتیں کرے تو نور علی نور ہے اور اسے (ان سب نیتوں کا ) دوہرا اجر وثواب ملے گا۔
فائدہ: بآواز بلند پڑھنا اس وقت افضل ہے جب ریا، تکبر، عُجب اور دوسرے مفاسد کا خطرہ نہ ہو اور کسی دوسرے کی نماز یا عبادت وغیرہ میں خلل نہ پڑے یا کسی کی نیند وآرام خراب نہ ہو ۔ ان میں سے کسی بھی ایک کا خطرہ ہو تو آہستہ پڑھنا افضل ہے۔
مسئلہ: اپنی استطاعت کے مطابق قرآن کریم کو اچھی آواز میں پڑھنا مستحب ہے، جب کہ ترنم وغیرہ والے لہجے سے پرہیز کرنا لازم ہے ۔ (ایضاً البرھان للزرکشی :464-464/1، التبیان للنووی ص:60-58)
تلاوت کے حقوق
اس ضمن میں علامہ زر کشی نے اپنی مشہور ومعروف کتاب البرہان فی علوم القرآن میں عمدہ اور قیمتی بحث کی ہے ۔ اختصار کے ساتھ اسے یہاں درج کیا جاتا ہے۔
” جس شخص کو الله تعالیٰ نے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی دولت نصیب کی ہے تو دراصل الله تعالیٰ نے اسے بے مثل نعمت سے نوازا ہے، کیوں کہ قرآن کریم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے ۔ اورا سلام کا مدار قرآن کریم پر ہے۔ اس لیے اسے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے او رایسے کام کرنے چاہئیں کہ قرآن کریم اس کے لیے شفاعت کرے او ران لوگوں میں سے مت بنے جن پر قیامت کے دن قرآن کریم الله تعالیٰ کی عدالت میں مقدمہ دائر کرے۔ قرآن کریم کچھ کاموں کا مطالبہ کرتا ہے اور کچھ سے روکتا ہے۔ پہلی نافرمان اقوام کے اعمال بد اور ان کے عبرت ناک انجام وعذاب کا بیان کرہے، تاکہ مسلمان اسے پڑھ کر الله تعالیٰ کی نافرمانی اور عصیان سے بچیں، تاکہ اس عبرت ناک عذاب سے بچ جائیں۔ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت یہ باتیں دل ودماغ میں محفوظ کرے گا تو ان شاء الله تعالیٰ وہ گناہوں سے رک جائے گا اور اسے عمل صالح کی توفیق نصیب ہو گی ۔
ان باتوں کے لیے سب سے بڑا معین ومدد گار ہے ”ترتیل“ یعنی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنا، یہ ترتیل ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ کم سے کم درجے کی ترتیل یہ ہے کہ پڑھتے وقت ایکحرف دوسرے حرف سے ممتاز جداکر ادا کیاجائے۔ ہرحرف اور ہر لفظ زبان میں سے صاف کرکے ادا کیاجائے۔ سانس لیتے وقت رکنا چاہیے او رپھر آگے بڑھے، اسی طرح ہر لفظ اپنے مخرج میں سے نکالے۔
قرآن پڑھتے وقت الفاظ کے معنی کی طرف غور وفکر کرنا چاہیے۔ ہر آیت کے معنی ومطلب اچھی طرح ذہن نشین کرے، جب تک ایک آیت کریمہ کے معنی ومقصد سمجھ میں نہ آئے تب تک دوسری آیت شروع نہ کی جائے ۔ رحمت والی آیت کی تلاوت کی جائے تو وہاں وقف کیاجائے او رالله تعالیٰ کی رحمت پر خوشی اور بشاشت کا اظہار کیا جائے۔ اور الله تعالیٰ سے اس کی رحمت کے طفیل جنت کا سوال کیا جائے ۔ جس آیت میں عذاب کا ذکر ہو تو وہاں بھی وقف کرکے اس کے معنی ومقصد پر غور کیا جائے۔ اگر یہ آیت کریمہ کافروں کے بارے میں تو اپنے ایمان کا اقرارا واعتراف کیا جائے اور ”آمنا بالله وحدہ“ پڑھے۔ پھر الله تعالیٰ سے جہنم کی آگ سے پناہ لی جائے۔
جس آیت میں ” یا ایھا الذین آمنوا“ ہو تو وہاں رک کر”لبیک ربی وسجدیک“ پڑھنا چاہیے۔ بہرحال ان الفاظ کے بعد آنے والی بات پر غور وفکر کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی حکم کیا ہو او رپڑھنے والے کو اس حکم کی بابت کوتاہی اور سستی واقع ہوئی ہو تو فوری طور پر الله تعالیٰ سے اس گناہ کی بخشش ومعافی مانگی جائے، ( استغفار کرے) اور توبہ تائب ہوجائے۔ مثال کے طور پر یہ آیت ہے : ﴿یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم ناراً﴾․ (التحریم:6)
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ“ ہر ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے بال بچوں کو نماز روزہ کے احکام، غلاظتوں سے پاکی حاصل کرنا۔ عورتوں کو حیض ونفاس وغیرہ سے طہارت کے مسائل سمجھانا لازم ہے۔ اپنی یہ منصبی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیے۔ اسی طرح چھوٹی اولاد کی دینی تعلیم وتربیت پر بھی توجہ مرکوز ہو۔
اسی طرح ﴿یا ایھا الذین آمنوا توبوا الی الله توبة نصوحاً﴾ (التحریم:5) ” اے ایمان والو! الله تعالیٰ کے ہاں سچی توبہ کرو“ پڑھی جائے تو اپنے سب گناہوں، غلطیوں اور سیئات پر نظر دوڑائے ۔ اگر گناہ حقوق العباد کے قبیل سے ہیں تو جس کا جو بھی حق ہے اسے ادا کرنا چاہیے اور اگر حقوق الله کے گناہ ہیں تو رو رو کر اپنے الرحیم الراحمین رب سے اپنے گناہوں کی معافی وبخشش لے، جب اس طریقے سے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو ان شاء الله تعالیٰ قرآن کریم کا حق ادا ہو جائے گا ۔ اور الله تعالیٰ اس بندہ کو اپنا فرماں بردار سمجھے گا۔
اگر کسی آیت میں کوئی حکم کیا ہوا ہے تو دل ہی دل میں اس کام کے کرنے اور فرماں برداری کرنے کا پکا ارادہ کر لے ۔ اور اگر کسی کام سے ممانعت ہے تو اس کام کو چھوڑنے اور گناہوں سے اجتناب کرنے کا عزم صمیم کر لے۔ اگر کسی عذاب یا سزا کا بیان ہے تو اپنے دل میں جھانکے، اگر اس میں الله تعالیٰ کے خوف کا حصہ زیادہ ہے تو اسے الله تعالیٰ کی رحمت میں امید دلائے ۔ او راگر اس میں امید کا حصہ زیادہ ہے تو اسے الله تعالیٰ کا خوف دلائے، تاکہ خوف وامید دونوں معتدل ہوں، جو کہ کامل ایمان ہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والوں کی تین اقسام ہیں:
جو قرآن کریم کے الفاظ کے معنی ومطلب الله تعالیٰ کی گفتگو میں نظر عمیق کرے، اس کا مفہوم ومقصد اچھی طرح سمجھے، پھر اپنے رب کو تضرع والحاح کے ساتھ پکارے، آہ وزاری کرے، یہ عارف بالله کا درجہ ہے ۔ اس لیے ابو عبدالله القرشی نے فرمایا ہے : ” اگر قلوب گناہوں سے پاک وصاف ہوں، تو وہ قرآن کریم کی تلاوت سے کبھی بھی سیراب نہیں ہوں گے۔“
جو شخص دل کے حضور سے قرآن کریم میں غوطہ زنی کرتا ہے ، وہ یہ سمجھتا ہے کہ گویا الله تبارک وتعالیٰ اپنے لطف وکرم سے اس سے بات چیت کر رہا ہے، اس لیے الله کے انعامات واحسانات کے شکریے کے طور پر اسے عجز وانکساری کی تصویر بن کر پکاررہا ہے، اس درجے کا تقاضا حیاء، تعظیم (الله تعالیٰ کی طرف) توجہ کرنا ہے ۔ یہ درجہ الله تعالیٰ کے مقرب بندوں کو حاصل ہے۔
حضوری مقام، بندہ( دل کی آنکھوں سے ) دیکھتا ہے گویا کہ وہ اپنے رب سے باتیں کر رہا ہے، اس لیے اسے تلاوت قرآن کریم کے وقت دوسری کسی بھی چیز کی خبر تک نہیں ہوتی۔ دنیا کی ساری چیزوں سے بے نیاز ہو کر قرآن کریم میں مستغرق ہو جاتا ہے، یہ درجہ اصحاب الیمین کو حاصل ہے۔
قرآن کا مطالبہ 
عارفین او رمتقین کے نزد یک قرآن کریم کی ہر آیت میں دس باتیں ہوا کرتی ہیں، جن کو پورا کرنا چاہیے۔
ایمان رب تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا توبہ کرنا صبر رب تبارک وتعالی کی رضا کو ڈھونڈنا الله تعالیٰ کا خوف الله تعالیٰ کی رحمت میں امیدشکر الله تعالیٰ کی محبت الله تعالیٰ پر توکل کرنا۔“ ( علامہ الزرکشی: البرہان فی علوم القرآن:453-449/1)
صفائی قلب کا علاج
حضرت ابراہیم خواص رحمہ الله نے فرمایا: ” دل کی بیماریوں کی دوا اور علاج مندرجہ ذیل پانچ اشیاء ہیں:
معنی ومقصد میں غوروفکر سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا پیٹ کو خالی رکھنا ( بالکل تھوڑا کھانا پینا) رات کو عبادت کرنا سحر کے وقت الله تعالیٰ کو تضرع والحاح کے ساتھ پکارنا الله کے نیک بندوں کی صحبت میں بیٹھنا ۔“ ( علامہ نووی: التبیان فی آداب القرآن، ص:46)
تلاوت قرآن کے افضل اوقات
امام نووی رحمہ الله تحریر فرماتے ہیں کہ ” قرآن کریم پڑھنے کا سب سے افضل اور اچھا طریقہ ( نفلی) نماز میں پڑھنا ہے، نوافل کے سوا باقی افضل اوقات مندرجہ ذیل ہیں:
سحر کے وقت غروب آفتاب سے لے کر نصف شب تک کسی بھی وقت مغرب وعشاء کے درمیان نماز فجر کے بعد جمعة المبارک، پیر اور جمعرات کے دن نو ذوالحجہ رمضان المبارک کا سارا مہینہ اور عشروں میں سے ماہِ رمضان کا آخری عشرہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ۔ ( امام نووی، التبیان فی آداب حملة القرآن ص:91)۔
تلاوت کے مکروہ اوقات
رکوع، سجدہ اور تشہد کی حالت میں نماز میں قیام کے علاوہ باقی اور سب حالات میں بیت الخلاء میں نیند کے غلبے کے وقت خطبہ جمعہ سننے کے وقت کعبة الله شریف کا طواف کرتے وقت غسل خانہ ( حمام) میں منھ میں خون وغیرہ کی نجاست ہونے کے وقت ۔
مخصوص آیات کے مخصوص احکام
جب ﴿وقالت الیھود عزیر بن الله وقالت النصاری المسیح ابن الله﴾ (التوبہ) ﴿وقالت الیھود ید الله مغلولة﴾ ․ (البقرة) ﴿وقالوا اتخذ الرحمن ولدا﴾ ( مریم) اور اسی قسم کی دوسری آیات کی تلاوت کی جائے تو اپنی آواز کو پست کرنا چاہیے او راپنے اوپر خشیت وخوف کی حالت طاری کرنا چاہیے۔ ﴿ان الله وملائکتہ یصلون علی النبی ﴾․ ( الاحزاب) پڑھے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود شریف پڑھا جائے۔والتین والزیتون والی سورة میں ﴿الیس الله باحکم الحاکمین﴾ پر پہنچے تو ﴿بلیٰ وانا علی ذلک من الشاھدین﴾ کہے سورة القیامة کی آخری آیت ﴿الیس الله بقا درعلیٰ ان یحییٰ الموتیٰ﴾ پر پہنچے تو ”بلیٰ“ کہنا چاہیے سورة الرحمن میں ﴿فبای آلاء ربکما تکذبٰن﴾ یا والمرسلات میں ﴿فبای حدیث بعدہ یؤمنون﴾ پر پہنچ کر ”آمنت بالله“ کہنا مستحب ہے۔ سورة الاعلیٰ کی پہلی آیت:﴿سبح اسم ربک الاعلیٰ﴾ پڑھے تو تین مرتبہ ﴿سبحان ربی الاعلیٰ‘﴾کہے۔ سورة الاسراء کی آخری آیت تلاوت کرنے کے بعد﴿الحمد لله الذی لم یتخذ ولدا﴾ پڑھنا چاہیے۔ سورة والضحیٰ سے لے کر والناس تک ہر سورت کے آخر میں ”الله اکبر“ کہنا مستحب ہے سورة والناس پوری کرنے کے بعد الله اکبر الحمد لله صدق الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود شریف اور دعا مانگنا مستحب ہے۔ سورة الفاتحة پوری کرنے کے بعد آمین کہنا۔
قرآن کریم کا ختم کتنے دنوں میں کرنا چاہیے؟
اس سوال کا جواب ہر شخص کے اپنے حالات پر ہے۔ کیوں کہ بعض انسان کمزور وناتواں ہیں تو بعض طاقت ور ، بعض ہوشیار وذہین تو بعض غبی وکند ذہن، بعض غوروفکر کرنے والے تو بعض غافل۔ بعض پھر تیلے اور چست تو بعض کاہل او رسست اس لیے شریعت مطہرہ نے قرآن کریم کے ختم کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اگر حکومتی ذمہ داریوں یا پڑھنے پڑھانے یا کسی دوسری دینی ذمہ داری سے فارغ ہے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے کثرت تلاوت کرنا چاہیے۔ باقی مندرجہ بالا ذمہ داریوں والے افراد کو اتنی تلاوت کرنی جس سے ان کو اپنی مفوضہ ذمہ داریاں نبھانے میں خلل وکارٹ نہ پڑے۔ عام حالات میں سلف صالحین سے مختلف طریقے نقل کیے گئے ہیں۔ کچھ ایک ماہ میں، کچھ ہفتے میں، کچھ ایک دن میں اور کچھ تو دن کو ایک ختم اور رات کو ایک ختم کرتے تھے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله نے فرمایا ہے : ” جس شخص نے غوروفکر سے ایک سال میں قرآن کریم کے دو ختم کیے، اس نے قرآن کریم کا حق ادا کر دیا، کیوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات والے برس جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دو مرتبہ قرآن کریم سنایا تھا۔
قرآن کریم کا ختم پورا کرنا
قرآن کریم کا ختم دن کے پہلے حصے میں مثال کے طور پر صبح کے وقت پورا کرنا مستحب ہے یا اگر رات کو پورا کرتا ہے تو رات کے پہلے حصے میں پورا کرنا چاہیے۔ ختم پورا کرنے والے دن نفلی روزہ رکھنا مستحب ہے، بشرطیکہ روزہ رکھنے کے مکروہ دن نہ ہوں۔ ختم پورا کرنے والے کی دعا میں شامل ہونا چاہیے۔ ختم پورا کرنے کے وقت دعا مانگنا نہایت تاکید کے ساتھ مستحب ہے ۔ کیوں کہ وہ دعا شرفِ قبولیت سے نوازی جاتی ہے۔ حمیدا عرج نے کہا ہے کہ جس شخص نے قرآن کریم پڑھا، پھر دعا مانگی تو اس کی دعا پر چار ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں۔ دعا نہایت خشوع خضوع اور الحاح کے ساتھ ہونی چاہیے ختم پورا کرتے وقت یہ دعا مانگنا مستحب ہے: ﴿اللھم رحمنی بالقرآن العظیم، واجعلہ لي إماما ونوراً وھدی ورحمة، أللھم ذکرنی منہ ما نسیت، وعلمني منہ ما جھلت، وارزقني تلاوتہ آنا للیل وآناء النھار، واجعلہ لي حجة یا رب العالمین﴾․ ختم پورا کرنے اور دعا مانگنے کے بعد، پھر شروع سے الحمد شریف اور﴿ الم ذلک الکتاب﴾ سے ﴿ھم المفلحون﴾ تک پڑھنا مستحب ہے ،کیوں حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس عمل کو سب سے اچھا اور افضل عمل قرار دیا ہے ۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو قرآن کریم کی مندرجہ بالا طریقے پر تلاوت کرنے اور اپنی مرضیات کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Flag Counter