Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

10 - 20
***
بچوں کی عملی زندگی پر بھی توجہ دیجئے
مولانا اسرار الحق قاسمی
بچوں کو زندگی گزارنے کے طریقے بتانا موجودہ دور میں بہت ضروری ہے ، بچوں کی عملی زندگی کو ان اسکولوں وکالجوں پر چھوڑ دینا، جن میں وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، نقصان دہ ہے۔ کیوں کہ اس عہد میں تعلیمی اداروں، خصوصاً عصری تعلیمی اداروں کا نصاب اور ماحول بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے، نئے تعلیمی نظام میں طلبہ کی عملی زندگی کے لیے خاطر خواہ روشنی نہیں ملتی۔ کس طرح سے طلبہ اپنی زندگی کو کامیابی کے ساتھ گزار سکتے ہیں، کس طرح وہ اپنی زندگی کو اخلاقی وانسانی قدروں سے مزین کر سکتے ہیں؟ اس سلسلہ میں عصری تعلیم گاہیں خاموش نظر آتی ہیں۔ ہاں! ایسے تعلیمی اداروں کی تو ضرور بہتات ہوتی جارہی ہے، جن میں پروفیشنل کورسز پڑھائے جاتے ہیں اور ان کو اسی کی تربیت دی جاتی ہے۔ کیسے اچھی تنخواہ حاصل کرسکتے ہیں؟ کس طرح اپنے بزنس کو بڑھاسکتے ہیں؟ کس طرح اپنی پروڈکٹ فروخت کر سکتے ہیں؟ کس طرح مارکیٹ میں اپنی شناخت بنا سکتے ہیں؟وغیرہ وغیرہ چیزیں تفصیل کے ساتھ سکھائی جاتی ہیں۔ چوں کہ اس دور میں مادیت کا بول بالا ہے ، اس لیے بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات ایسے اداروں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ موجودہ دور کے اسکولوں وکالجوں میں موسیقی، رقص، کھیل کود اور مختلف انداز کے شعبے قائم ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جنسی تعلیم کے شعبوں کے قیام کی بھی جگہ جگہ حمایت ووکالت ہو رہی ہے۔ لیکن اخلاقی وروحانی تعلیم کے شعبے قائم نہیں کیے جارہے ہیں اور نہ ہی بچوں کی عملی زندگی کو انسانی اقدار سے مزین کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی عملی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں؟ کیسے انہیں اخلاقی ومذہبی زندگی گزارنے کی تعلیم وتربیت دیں؟
تعلیمی اداروں کے بدلتے تعلیمی نظام اور ماحول کو دیکھ کر والدین کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اپنے بچوں کی عملی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے خود کوشش کریں، انہیں اسکولوں وکالجوں پر نہ چھوڑیں، کیوں کہ اس صورت میں ان کی عملی زندگی کے خراب ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ معاشرے میں دیکھا جارہا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو اخلاقی، روحانی ومذہبی تعلیم وتربیت نہیں دیتے اور صرف ماڈرن اسکولوں پر چھوڑ دیتے ہیں، ان کے بچوں کی زندگی اخلاقی اقدار سے محروم نظر آتی ہے ۔ چناں چہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی بچپن سے ہی اخلاقی وروحانی تربیت کریں، انہیں بتائیں کہ انہیں کس طرح زندگی گزارنی چاہیے، کس طرح بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ پیش آنا چاہیے، کس طرح معاشرہ میں رہنا ہے، کس طرح اکل حلال پر توجہ دینی ہے ، کس طرح معاملات کرنے ہیں، کس طرح اپنی زندگی کو گزارنا ہے۔ اس طرح کی تربیت خود دیں اور گھر کے ماحول کو اس طرح بنائیں کہ بچہ اس سے وہ سب کچھ سیکھ جائے جس کی اسے ضرورت ہے۔ ترقیات سے مرعوب ہو کر بچہ کو اس کے حال پر چھوڑ دینا اور ترقی کی علامت سمجھے جانے والے اداروں کو اس کی زندگی کے لیے کافی سمجھ لینا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس بات کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عہد حاضر میں جس تیزی کے ساتھ ترقیات سامنے آرہی ہیں او رانسان مختلف علوم وفنون سے آشنا ہو رہا ہے ، اسی قدر تیزی کے ساتھ انسان میں اخلاقیات کا فقدان ہوتا جارہا ہے۔
زندگی کے کسی بھی شعبہ کو لے لیجیے، وہاں مادی اعتبار سے تو بڑی حد تک کامیابی کے روشن امکانات مل جاتے ہیں، مگر انسانی واخلاقی لحاظ سے زیادہ تر مایوسی ہی ہاتھ لگتی ہے، اس مشینی دور میں لوگ پرندوں کی مانند ہواؤں میں اڑنا تو سیکھ گئے ہیں، لیکن انسانوں کی طرح زمین پر چلنا بھول گئے۔ آج کے انسان کی گرفت مادی وپیشہ ورانہ علوم پر تو مضبوط ہو گئی ہے، مگر وہ علوم جو انسان کو بحیثیت انسان متعدد اوصاف سے آراستہ کرتے ہیں ، ان پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بڑے اہم مقام پر فائز حضرات بسا اوقات زبان سے ایسی باتیں کہتے نظر آتے ہیں جو اخلاقیات کے لحاظ سے غیر مناسب ہوتی ہیں۔ اسی طرح مادی علوم پر گہری نظر رکھنے والے افراد ایسے اعمال میں بھی کبھی کبھی ملوث دکھائی دیتے ہیں ، جن سے انسانی اقدار کی دھجیاں اڑتی چلی جاتی ہیں۔ معاشرے پر گہری نظر ڈالنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی خطرناک قسم کے جرائم میں ملوث ہیں، جب کہ انہیں عام لوگوں کے مقابلے زیادہ شریف ، با اخلاق اور عمدہ انسان ہونا چاہیے ، کیوں کہ ایک طرف وہ تعلیم کی دولت سے مالا مال ہیں، دوسری طرف وہ عوام الناس کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ اگر پڑھے لکھے لوگ انسانیت کی صدق دل سے خدمت کریں تو یقینا بڑے پیمانہ پر وہ لوگوں کی خدمت کرسکتے ہیں، ان کے کام آسکتے ہیں، ان کی مدد کرسکتے ہیں، انہیں صحیح راستہ دکھا سکتے ہیں، لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ بلکہ پورے معاشرے کو صالح اور جرائم سے پاک بنا سکتے ہیں، لیکن اگر پڑھے لکھے لوگوں کا مطمح نظر صرف دولت کا حصول ہواور انہیں انسانیت کی خدمت اور رہبری سے کوئی دلچسپی نہ ہو تو پھر معاشرے کے حالات کو اور زیادہ دگرگوں ہونے سے بچانا مشکل ہو گا۔
اخلاق کی اسی وقعت واہمیت کے باعث اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اعلیٰ پیمانے پر اس کی تعلیم دی ہے اور مختلف اعمال کے ذریعہ ان کی اخلاقی تربیت پر زور دیا ہے ، اخلاقی تربیت کے لیے پہلے پڑاؤ پر ایمان والوں کو سچ بولنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ فرمایا گیا مومنو!” الله کا خوف رکھو اور سچوں کے ساتھ رہو“۔ (التوبہ:129)
سچائی پر اس لیے زور دیا گیا کہ یہ انسان کے اندر بہت سی خوبیوں کو جلا بخشنے کا سبب بنتی ہے اور بہت سی برائیوں کے ارتکاب سے معاشرے کو پاک رکھتی ہے۔ جو شخص سچائی سے انحراف کرکے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے وہ غیروں کے ساتھ بھی دھوکہ کرسکتا ہے اور اپنوں کے ساتھ بھی دھوکہ کر سکتا ہے۔ نہ اس کے کسی وعدہ کا اعتبار کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے کسی عہد اور قسم کا۔ کذب گوئی ناپسندیدہ عمل ہے اور ”سچ“ عظیم عمل ہے۔ اس لیے الله کے نزدیک سچے لوگوں کا اعلیٰ مرتبہ ہے ۔ ارشاد باری ہے۔” اور جو الله کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر الله نے انعام فرمایا ہے۔ یعنی انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ۔ کیا ہی خوب ہیں یہ رفقا رفاقت کے لیے۔“ (النساء:69)
انسان کو خواہشات پر قابو رکھنے کی تاکید کی گئی ہے، کیوں کہ خواہشات کو آزاد چھوڑ دینا انتہائی خطرناک بات ہے۔ فرمایا گیا” او راپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھیے جو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں ، اس کی رضا کے طالب بنے ہوئے ہیں ، ان کی طرف سے کبھی نگاہیں نہ پھیریے کہ آپ دنیا کی آرائشیں چاہنے لگیں۔“ (الکہف:28)
اس آیت سے جذبات وخواہشات پر قابو پانے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ دراصل خواہشات کو جس قدر بڑھایا جائے وہ بڑھتی جاتی ہیں او رانسان کو اس کے اصلی مقصد سے ہٹا دیتی ہیں۔ فی زمانہ انسان خواہشات کے پیچھے بھاگنے لگا ہے۔ اس مادی دور میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی جو مقابلہ آرائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ کسی طرح تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اگر کچھ لوگوں کے پاس عمارتیں ہیں، گاڑیاں ہیں اور تعیشات کے سامان ہیں تو دوسرے لوگ بھی انہیں کی طرح ان سب چیزوں کوحاصل کرنے کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ انسانی تقاضوں کو بھی فراموش کیے ہوئے ہیں اور الله کے بہت سے احکامات کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں، دنیا کی آرائشوں کے حصول کی تمنا یقینا انسان کو رجوع الی الله سے ہٹا دینے والی ہے۔ اس لیے آیت بالا میں دنیا کی آرائشیں چاہنے سے پرہیز کی بات کہی گئی ہے۔ خواہشات اور جذبات کو طول دینے سے نفسانی خواہشات بھی بھڑکنے لگتی ہیں، جس کے بعد انسان کے لیے ایسے گھٹیا عمل کی طرف بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جس کو شریعت نے انتہائی بے حیائی وبد کاری والا عمل بتایا ہے۔ یہ نفسانی خواہشات کو آزاد چھوڑ دینے یا نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑی تعداد میں عوام کے درمیان ٹی وی کا رواج عام ہو رہا ہے، جس پر زیادہ تر فحش فلمیں،گانے اور لغو پروگرام دیکھے جارہے ہیں ،اس سے کئی نقصانات سامنے آرہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ معاشرے میں طرح طرح کی برائیاں پھیل رہی ہیں، دوسرے یہ کہ مغربی تہذیب کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، تیسرے یہ کہ لوگوں کا انتہائی قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے اور چوتھی طرف انسان تقویٰ کی روش سے ہٹتا جارہا ہے ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اخلاقی تربیت کے دوران جذبات و خواہشات پر قابو پانے کو سر فہرست رکھا جائے۔ نفسانی خواہشات کی پیروی سے اجتناب کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان کی روحانی تربیت کی جائے۔ جہاں تک ممکن ہو باطن کی صفائی پر زور صرف کیا جائے، کیوں کہ اگر باطن صاف ہو گا تو یقینا دل لغو او رگناہوں کی غلاظت سے بھری ہوئی باتوں کو قبول نہ کرے گا، بلکہ قلب وذہن کو سکون اس وقت حاصل ہو گا، جب روح کو تسکین دینے والا کوئی عمل کیا جائے اور جہاں تک روح کو تسکین دینے کی بات ہے تو وہ ذکر الله سے حاصل ہوتی ہے او رجب انسان ہمہ وقت ذکر خدا وندی میں مشغول رہتا ہے تو دنیا وآخرت میں اس کی کامیابی یقینی بن جاتی ہے۔

Flag Counter