Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الاولیٰ 1431ھ

ہ رسالہ

17 - 20
***
سیدنا فاروق اعظمؓ
محترم پروفیسر محمد حمزہ نعیم
نیل کو حکمِ عمر سن کر پسینہ آگیا
ریت کے ذرے پگھل کر ہو گئے سب آب آب
یہ مال نہ عمر کا ہے ، نہ عمر کے باپ کا: امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے ایک عیسائی راہب کے ایک تحریری وثیقہ پیش کرنے پر یہ بات فرمائی ، بیت المقدس فتح ہو چکا تھا ۔ مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ حضرت عمر وبن عاص کی قیادت میں کئی ماہ جاری رکھا تھا، پھر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح بھی پہنچ گئے تھے، وہاں کے رہنے والوں نے تنگ آکر مسلمانوں کے امیر عسکر کو پیغام بھیجا تھا کہ ” بیت المقدس کو جو شخص فتح کرے گا ہم اُسے اچھی طرح پہچانتے ہیں ۔ اُ س کی نشانیاں، اُس کا حُلیہ ہماری آسمانی کتابوں میں لکھا ہوا ہے، ہاں! اگر تم وہ شخص ہمیں دکھا دو اور ہم اسے اپنی کتابوں کے مطابق پہچان لیں تو بغیر لڑائی کے شہر تمہارے حوالے کر دیں گے،نائب رسول، مراد رسول، امیر المومنین، حضرت عمر رضی الله عنہ کو بات پہنچائی گئی ۔ انہوں نے سوچا اور مشورہ کیا کہ اگر خون خرابے اور قتل مشرکین کے بغیر ہی اس مقدس شہر پر اسلام کا پرچم لہرا سکتا ہے تو سفر کی صعوبتیں مجھے گوارا ہیں… المختصر آں جناب پہنچے، مشرکین اہل کتاب نے اپنی کتاب میں درج تمام علامتیں ان میں موجود پائیں تو کہنے لگے ” ھذا ھو“ یہ وہی تو ہیں اور شہر پناہ کی چابیاں ان کے حوالے کر دیں۔اسی واقعہ کے کچھ بعد ایک عیسائی راہب عالم ان کے پاس آیا اور ان کی خدمت میں ایک تحریر پیش کی، اس تحریر کو پڑھ کر حضرت عمر رضی الله عنہ نے وہ فرمایا، جو اوپر درج کیا ہے کہ ” یہ مال نہ عمر کا ہے، نہ عمر کے باپ کا۔“
ساتھ بیٹھے لوگ حیرت میں گم تھے اور ابن خطاب کے تو بیسیوں واقعاتہیں جو اہل علم وفہم ساتھیوں کو حیرت زدہ کر دیا کرتے تھے، سید نا علی رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے ” عمر کو کچھ نہ کہو، یہ اپنی حیرت اور استعجاب میں ڈالنے والی ہر بات کا جواب رکھتے ہیں ۔“ حاضرین کی حیرانی پر امیر المومنین نے پورا واقعہ انہیں سنا دیا۔ ابن عساکر اور دینوری نے لکھا ہے، جسے ازالة الحق میں نقل کیا گیا کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ میں ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ قبل از اسلام ملک شام گیا، قافلہ واپس روانہ ہوا، مگر میری کوئی ضروری چیز رہ گئی تھی میں اسے لینے چلا گیا۔ قافلہ جا چکا تھا، مجھے ایک پادری اپنے ساتھ گر جامیں لے گیا اور پردیسی سمجھ کر ایک پھاوڑا اور ٹوکری میرے حوالے کی او رمٹی کا ایک ڈھیر دوسری جگہ ڈالنے کا حکم دیا۔ وہ گرجا کا دروزہ بند کرکے چلا گیا ۔ ( میں کوئی اس کا غلام تو تھا نہیں ) جب وہ دوپہر کو واپس آیا تو مٹی وہیں کی وہیں پڑی تھی ۔ اس نے غصے میں میرے سر پر مکا مارا، جواب میں میں نے اس کے سر میں پھاوڑا مار دیا، جس سے اس کا بھیجا نکل آیا۔ میں وہاں سے چل دیا ۔ بقیہ دن اور پوری رات چلتا رہا ۔ اگلی صبح ایک گرجا گھر کے سامنے آرام کرنے کے لیے بیٹھ گیا۔ وہاں موجود شخص اندر سے نکلا، اس نے مجھے سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا، میرے لیے کھانا اور پانی لایا، پھر کہنے لگا، ” اہل کتاب جانتے ہیں کہ آج روئے زمین پر مجھ سے بڑا عالم کتبِ ربانی موجود نہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ وہی شخص ہیں جو ہمیں اس گرجا سے نکالیں گے۔ آپ اس گرجا کو میرے نام واگزار کر دیجیے۔ مجھے ایک تحریر لکھ دیجیے۔ میں نے کہا آپ نے مجھے کھانا کھلایا ہے، مجھ پر احسان کیا ہے۔ آپ میرے ساتھ مذاق نہ کیجیے، مگر وہ نہ مانا، آخر میں نے اسے یہ تحریر لکھ دی۔ آج اسی تحریر کو لے کر یہ حاضر ہوا ہے ، کہتا ہے اپنا وعدہ پورا کیجیے ، تو میں نے جواب دیا ہے ، یہ مال نہ میرا ہے ، نہ میرے باپ کا، میں تجھ کیسے دے سکتا ہوں؟“
سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ قریش مکہ کی زائد ازدو درجن شاخوں میں سے عدی بن کعب کی اولاد میں سے اپنے بہنوئی او رچچازاد بھائی سعید بن زید رضی الله عنہ کے ساتھ عشرہ مبشرہ کی سعادت وبشارت سے سعادت مند ہوئے۔ آٹھویں پُشت میں رسول ِ مقبول صلی الله علیہ وسلم کے ہم جد بن جاتے ہیں، بخاری شریف میں ہے کہ وہ ایک دن ایک بت خانے میں سو رہے تھے کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی تو بت کے اندر سے آواز آئی۔
” اے جلیح! ایک فصیح البیان کہتا ہے لا الہ الا الله“ یہ آواز سن کر لوگ تو بھاگ گئے، مگر میں کھڑا رہا ، دوسری بار پھر وہی آواز آئی، اس کے کچھ دن بعد چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں، کچھ دنوں بعد نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کو حرمِ کعبہ میں دوران نماز سورة الحاقہ پڑھتے سنا، جس میں قیامت اور حشر نشر کا موثر بیان ہے ، دل پر ایک خاص اثر ہوا۔ فرماتے ہیں وقع الاسلام فی قلبی کل موقع اسلام پوری طرح میرے دل میں بیٹھ گیا۔ مگر بقول محاورہ ”سہج پکے سو میٹھا ہو“ اسلام کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے بعد سردرار ان قریش ابوجہل وغیرہ نے دارالندوہ میں میٹنگ بلائی کہ اس نئے مذہب اور اس میں داخل ہونے والے لوگوں کا کیا کیا جائے؟ طے یہ ہوا کہ داعی اسلام، سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم ہی کا خاتمہ کر دیا جائے، مگر اس مشکل قرار داد پر عمل کی کیا صورت ہو؟ اُدھر دو دن پہلے بارگاہ الہی میں خاتم المعصومین صلی الله علیہ وسلم کے مقدس ہاتھ عزت اسلام کے لیے ابن خطاب کی نشان دہی کر چکے تھے، اب خطاب کا بیٹا نہایت درجہ اعتماد کے ساتھ اٹھا او رکہنے لگا” یہ بڑا کام میرے ذمہ لگا دو ۔“ سب سرداروں نے بہ نظر تحسین دیکھا اور کہا کہ ہاں اس جبل عزیمت کو سر کرنا تمہارے ہی جیسے جوان کے مقدر میں ہے۔ عمر بن خطاب اٹھے اور سید الانبیاء کے گھر کا رخ کیا ،مگر چند ہی قدم پر ایک دوسرے نوجوان نعیم بن عبدالله نے کانٹا بدل دیا۔ ” عمر! پہلے اپنے گھر کی خبر لو ۔ تمہارے بہنوئی اور بہن کلمہ توحید پڑھ چکے ہیں۔“ بہن کے گھر پہنچے۔ بہنوئی کو مارا بہن آڑے آگئی” عمر تو خطاب کا بیٹا ہے تو میں بھی اسی خطاب کی لخت جگر ہوں، ہماری جان جاسکتی ہے۔ ہم ایمان نہیں چھوڑ سکتے۔“ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا #
تو میدانی کہ سوز قرأت تو
دگرگوں کرد تقدیر عمر را
سیدہ فاطمہ بنت خطاب چند لمحے پہلے سورة طہٰ کی تلاوت سیکھ رہی تھیں ۔ ابتدائی آیات تھیں، سیدنا عمر کی نظر ان آیات مقدسہ پرپڑی تو وہاں لکھا تھا ﴿اِنّنی انا الله لا الہ الا انا فاعبدنی﴾ بلاشبہ میں ہی الله ہوں، میرے سوا کوئی الہ کوئی مالک ومختار کوئی معبود ومسجود ومقصود نہیں ، میری بندگی کر لے۔“ سورہ حدید میں الله نے لوہے کی تعریف کی ہے ، اگر لوہا خالص ہو تو مقناطیس اسے کھینچ ہی لیتا ہے۔ نبی کی دعا، بہن کی دعوت اور آیات کریمہ کی گرفت نے ابن خطاب کے دل ودماغ کو کسی دوسرے کا نہ رہنے دیا تھا۔ قدموں کو اٹھانا محال ہو گیا تھا، مگر گرتے پڑتے مدرسہ حق، دار ارقم، سید الکونین صلی الله علیہ وسلم کے قدموں میں پہنچے ۔ غلامی کا اعلان کیا۔ سرور دو عالم نے تکبیر بلند فرمائی جس کی تائید میں چالیس نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے۔ مشرک سرداران قریش کسی خوش خبری کی انتظار میں تھے ، ان پر عالم سوگ طاری ہو گیا۔ حمزہ وعمر کی قیادت اور خاتم المعصومین کی نگرانی میں چالیس اہل توحید نے پہلی بار حرم کعبہ میں باجماعت نماز ادا کی۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی الله عنہ نے اس کے بعد حرم کعبہ کے متصل مکہ مکرمہ کے بڑے پہاڑپر کھڑے ہو کر نعرہ توحید بلند کرکے اپنے اسلام کا اعلان کیا کہ جن لوگوں تک ابھی ابن خطاب کے اسلام کی اطلاع نہیں پہنچی ان کو بھی پتا چل جائے، اس بڑے پہاڑ کا نام اسی دن سے جبل عمر ہو گیا۔
سیدنا عمر داخل اسلام ہوئے تو چالیسویں نمبر پر تھے ۔ دینی خدمات او رفیض صحبت رسول میں قدم بڑھاتے رہے تو سوائے بلافصل خلیفہ رسول، سیدنا ابوبکر کے سب صحابہ سے آگے بڑھ گئے، یعنی ثانی رسول کے ثانی بن گئے، سیدہ طاہرہ ام المومنین عائشہ نے سوال کیا یا رسول الله! آج رات بہت تاریک ہے، بے شمار ستارے چھوٹے بڑے نظر آرہے ہیں اور بے شمار ایسے بھی ہیں جو نظر نہیں آرہے، کیا ایسا کوئی مؤمن ہے جن کی نیکیاں ان سیاروں ستاروں جتنی ہوں؟ ارشاد سرور دو عالم ہوا، ہاں! ابن خطاب کی نیکیاں اس سے بڑھ کر ہیں۔ (مفہوم حدیث) ام المومنین مغموم ہو گئیں ” تو پھر میرے باپ؟“ فرمایا عائشہ! عمر کی عمر بھر کی نیکیاں تیرے باپ ( صدیق اکبر رضی الله عنہ ) کی غارثور والی تین راتوں میں سے ایک رات کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ (الحدیث ) ہاں! یہی ابن خطاب جب امیر المومنین بنے تو ہوا کے دوش پر ساریہ کو میدان جہاد میں ہدایات دے کر فتح کی راہ دکھائی ، زمین پر زلزلہ آیا تو درہ مار کر کہا کیا میں نے تجھ پر عدل قائم نہیں کیا۔ زمین سکون پذیر ہو گئی۔ پہاڑنے آگ نکالی تو تمیم داری کو بھیج کر اسے واپس ہونے کا حکم دیا اور دریائے نیل کو جاری نہ ہونے پر ایسا دھمکا یا کہ اسے اپنے نخرے بھول گئے، وہ آج تک اسلامیان مصر کی خدمت میں مشغول ہے ۔ مٹی، آگ ،پانی ،ہوا ان کا حکم تمام عناصر پر چلا۔ کیوں نہ چلتا کہ علمائے یہود ونصاری بھی ان کا نام ونسب اور صفات اپنی کتابوں میں لکھا پاتے تھے اور اس کا اعلان قرآن نے بھی کیا کہ اصحاب نبی خصوصاً اصحاب کبار کا مبارک ذکر اور ان کی مبارک امثال تورات وانجیل میں دی جاچکی ہیں ۔ خوش نصیب ہیں وہ جو قرآن ذی شان پرایمان رکھتے ہیں #
سمندروں سے خراج مانگا ابھرتے سورج سے تاج مانگا
کسے خبر ہے کہ ان کا سکہ جہاں میں جاری کہاں کہاں تھا

Flag Counter